صفحات

اتوار، 15 فروری، 2015

ڈاکٹر کلیم أحمد عاجز


کلیم أحمد عاجز .............. سے متعلق اقتباس

ﭘﭩﻨﮧ 15:؍ﻓﺮﻭﺭﯼ
ﺑﺼﯿﺮﺕ ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺑﯿﻮﺭﻭ
ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻞ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﺩﺭﺩ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﻮ
ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻗﺮﻧﻮﮞ ﺭﻻﯾﺎ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺁﺝ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮﮨﻤﯿﺸﮧ
ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﻻﮔﺌﮯ ﺁﺝ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺼﺒﺢ ﺣﺮﮐﺖِ ﻗﻠﺐ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﺎﻋﺚ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ،ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻋﮩﺪ
ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ؛ﺑﻠﮑﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺩﺑﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯿﻠﺌﮯ
ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ۔ﻣﻮﺻﻮﻑ ۹۵ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ ،ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ
۱۹۲۰ﺀ ﻣﯿﮟ ﭘﭩﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﺎﺅﮞ ﺗﯿﻠﮩﺎﮌﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯽ ،ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮ ﮐﮧ ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎﺳﺒﺐ
ﺗﯿﻠﮩﺎﮌﮦ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺩﻟﺪﻭﺯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ
ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺒﮭﯽ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﻋﯿﺪ ﻗﺮﺑﺎﮞ ﮐﯽ ﺷﺐ
ﺑﻠﻮﺍﺋﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﺟﻼﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ’’ﻭﮦ ﺟﻮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﻮﺍ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺗﻔﺼﯿﻞ
ﺳﮯ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎﮨﮯ ۔ﻣﻮﺻﻮﻑ ﺁﺝ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﮐﮯ ﻣﯿﺮ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ
ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮ ﮐﯽ ﻗﺎﺑﻞِ ﻓﺨﺮ ﺟﺎﻧﺸﯿﻨﯽ ﮐﺎ ﻓﺮﺽ
ﻧﺒﮭﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﭩﻨﮧ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﺍﻭﺭ
ﯾﮩﯽ ﺳﮯ ﮈﺍﮐﭩﺮﯾﭧ ﮐﯽ ﮈﮔﺮﯼ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﮨﮯ ۔ﭘﺪﻡ
ﺷﺮﯼ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻠﯿﻢ ﻋﺎﺟﺰ ﮐﯽ ﺭﺣﻠﺖ ﭘﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻓﻀﯿﻞ ﺍﺣﻤﺪ
ﻧﺎﺻﺮﯼ ﺍﺳﺘﺎﺩِ ﺣﺪﯾﺚ ﺟﺎﻣﻌﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻧﻮﺭ ﺷﺎﮦ ﺩﯾﻮﺑﻨﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﺎﺩﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺷﻌﺮ ﻭ ﺳﺨﻦ ﻣﯿﻦ ﺍﻥ ﺳﮯ
ﺍﺻﻼﺡ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺧﺎﮐﺴﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ
ﺗﺤﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺣﻮﺻﻠﮧ
ﺍﻓﺰﺍﺋﯽ ﮐﯽ،ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺩﺍﺭِ
ﻓﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺩﺑﯽ
ﺩﻧﯿﺎﻣﯿﮟ ﺩﯾﻨﯽ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﺍﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺨﺺ
ﻧﮧ ﺭﮨﺎ۔ﻣﻮﻻﻧﺎﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻌﮧ ﭘﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﺍﺩﺑﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﻨﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺩﺏ ﮐﮯ
ﮔﯿﺴﻮﺋﮯ ﺑﺮﮨﻢ ﮐﮯ ﺳﻨﻮﺍﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﯽ
ﺭﺟﺤﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮ۔ ﺍﺱ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺑﺼﯿﺮﺕ ﺁﻥ
ﻻﺋﻦ ﮐﮯ ﭼﯿﻒ ﺍﯾﮉﯾﭩﺮﻣﻮﻻﻧﺎﻏﻔﺮﺍﻥ
ﺳﺎﺟﺪﻗﺎﺳﻤﯽ،ﺍﯾﮉﯾﭩﺮﺷﻤﺲ ﺗﺒﺮﯾﺰﻗﺎﺳﻤﯽ،ﺳﺐ
ﺍﯾﮉﯾﭩﺮﺍﻓﺘﺨﺎﺭﺭﺣﻤﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮﮐﻠﯿﻢ ﻋﺎﺟﺰﮐﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ
ﮐﻮﺍﺩﺑﯽ ﺩﻧﯿﺎﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﺍﻭﺭﻣﻠﺖ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ﮨﻨﺪﯾﮧ
ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻟﻌﻤﻮﻡ ﺧﺴﺎﺭﮦ ﻋﻈﯿﻢ ﺑﺘﺎﯾﺎ۔

معروف شاعر کلیم عاجز ...... جہانِ فانی سے کوچ کرگئے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے-

ءممتاز شاعر پدم شری
ڈاکٹر کلیم أحمد عاجز اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ........

انا للّہ و انا الیہ راجعون

۱۵/۲/۲۰۱۵

یہ خبر نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ:
میر کے انداز میں غزل گوئی کے لئے ممتاز اور
اپنے کلام میں مخصوص لب و لہجہ کے لئے بین الأقوامی شہرت کے مالک معروف شاعر ڈاکٹر کلیم احمد عاجز کا انتقال ہوگیا-

آپ کا شمار اردو غزل کے اہم  رجحان ساز شعراء میں ہوتا ہے۔
آپ نے تقسیمِ ہند کے فسادات کو بچشمِ خود دیکھا تھا، آپ کے افرادِ خاندان بھی اِسی حادثے میں شہید ہوئے تھے-
ان تمام حادثات کا آپ نے گہرا اثر قبول کیا- آپ کی شاعری میں تقسیمِ ہند کے فسادات کے اثرات عجیب طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں،
آپ شعبۂ اردو، پٹنہ کالج، پٹنہ یونیورسٹی کے پروفیسر رہے-

آپ کی شاعری کا اہم امتیاز یہ ہے کہ آپ میر کے رنگِ سخن اور اندازِ تغزل کا فنکارانہ تتبع کرتے ہیں، بلکہ آپ کے کلام میں درد و غم اور رنج و الم کی کیفیت میر سے زیادہ شدت اور گہرائی کے ساتھ محسوس کی گئی ہے۔

ڈاکٹر کلیم أحمد عاجز کی تصانیف میں...
’مجلس ادب‘،
’وہ جوشاعری کا سبب ہوا‘،
’جہاں خوش بو ہی خوش بو تھی‘،
جب فصلِ بہاراں آئی تھی،
دیوانے دو،
پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا،
دفترِ گم گشتہ،
کوچہ۶ جاناں جاناں،
پہلو نہ دکھے گا،
میری زبان، میرا قلم،
ابھی سن لو مجھ سے،
یہاں سے کعبہ ، کعبے سے مدینہ‘،
’اک دیس ایک بدیسی'،
وغیرہ شامل ہیں۔

حکومت ہند کی جانب سے ڈاکٹر کلیم عاجز کو پدم شری ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔

آپ کے فن اور شخصیت پر پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے ایک کتاب
کلیم أحمد عاجز -- شخصیت اور شاعری کے نام سے مرتب کی ہے جو ھدیٰ بک ڈسٹریبیوٹرس، حیدرآباد سے شائع ہوئی ہے۔

آج صبح یعنی ۱۵ فروری ۲۰۱۵ کو ڈاکٹر کلیم أحمد عاجز اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔
اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے-
انّاالللہ وانّا الیہ راجعون۔
....

ڈاکٹر کلیم أحمد عاجز کی کتاب ’وہ جو شاعری کا سبب ہوا' کی پہلی غزل...........

رات جی  کہول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے

اور وہ چیز نہ دولت نہ مکاں ہے نہ محل
تاج مانگا ہے نہ د ستا ر وقبا مانگی ہے

نہ تو قدموں تلے فرش گہر مانگا ہے
اور نہ سر پر کلہ بال ھما مانگی ہے

نہ شریک سفر و زاد سفر مانگا ہے
نہ صداے جرس وبانگ درا مانگی ہے

نہ سکندر كی طرح فتح کا پرچم مانگا
اور نہ مانند خضر عمر بقا مانگی ہے

نہ کوئ عہدہ نہ کرسی نہ لقب مانگاہے
نہ کسی خدمت قومی کی جزا مانگی ہے

نہ تو مہمان خصوصی کا شرف مانگا ہے
اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے

میکدہ مانگا، نہ ساقی، نہ گلستاں، نہ بہار
جام وساغر نہ مئے ہوش ربا مانگی ہے

نہ تو منظر کوئی شاداب وحسیں مانگا ہے
نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے

محفل عیش نہ سامان طرب مانگا ہے
چاندنی رات نہ گھنگھور گھٹا مانگی ہے

بانسری مانگی نہ طاؤوس نہ بربط نہ رباب
نہ کوئی مطربہ شیریں نوا مانگی ہے

چین کی نیند نہ آرام کا پہلو مانگا
بخت بیدار نہ تقدیر رسا مانگی ہے

آ تیرے کان میں کہدوں اے نسیم سحری
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے کیا مانگی ہے

وہ سراپائے ستم جس کا میں دیوانہ ہوں
اسکی زلفوں کیلئے بوئے وفا مانگی ہے

........................................................

ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﻟﮩﻮ ﭘﺮ ﮔﺰﺭ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯿﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﺳﺘﻢ، ﺍﯾﮏ ﺳﺘﻢ ﺭﺍﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮ، ﺩﺷﻤﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﻣﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﮨﻢ ﺧﺎﮎ ﻧﺸﯿﮟ، ﺗﻢ ﺳﺨﻦ ﺁﺭﺍﺋﮯ ﺳﺮِ ﺑﺎﻡ
ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﮯ ﻣﻠﻮ، ﺩُﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺟﻮ ﻣﻼ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻣﻼ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﮭُﻼ ﺩﯾﮟ ﺗﻤﮭﯿﮟ، ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ
ﺟﺐ ﻭﻗﺖ ﭘﮍﮮ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﺩﺍﻣﻦ ﭘﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﯿﻨﭧ ﻧﮧ ﺧﻨﺠﺮ ﭘﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺍﻍ
ﺗﻢ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮐﺮﺍﻣﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ
ﺑﮑﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﻋﺎﺟﺰؔ ﮐﻮ ﺟﻮ ﺑﻮﻟﮯ ﮨﮯ، ﺑﮑﮯ ﮨﮯ
ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﮯ، ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ

.....................

جدا دیوانہ پن اب ایسے دیوانے سے کیا ہوگا
مجھے کیوں لوگ سمجھاتے ہیں سمجھانے سے کیا ہوگا

سلگنا اور شے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
جو ہو رہا ہے کام ہم سے وہ پروانے سے کیا ہوگا

میرا قاتل انھیں کہتے ہیں سب اور ٹھیک کہتے ہیں
قسم سو بار وہ کھائیں قسم کھانے سے کیا ہوگا

مناسب ہے سمیٹو دستِ دامنِ دعا عاجز‍
زباں ہی بے اثر ہے ہاتھ پھیلانے سے کیا ہوگا

..........................................................................

اس ناز اس انداز سے تم ھائے چلو ہو
روز ایک غزل ھم سے کھلوائے چلو ہو

رکھنا ہے کھیں پاؤ تو رکھو ہو کھیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

دیوانہ گل قیدی زنجیر ہیں اور تم
کیا ٹھاٹ سے گلشن کی ہَوا کھائے چلو ہو

مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ
پینا نھیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو

ھم کچھ نھی کھتے ہیں کوئی کچھ نھیں کھتا
تم کیا ہو تمھیں سب سے کھلوائے چلو ہو

زلفوں کی تو فطرت ھی ہے لیکن میرے پیارے
زلفوں سے زیادہ تمھیں بل کھائے چلو ہو

_______ڈاکٹر کلیم عاجز

........................................................................

.