صفحات

جمعرات، 25 اپریل، 2013

مولانا ابوالکلام آزاد : بحیثیت شاعر


مولانا ابوالکلام آزاد : بحیثیت شاعر
Maulana Azad : as a poet
ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری 
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اردو،گورنمنٹ ڈگری کالج، 
پلمنیر ۔ ضلع چتور ( آندھراپردیش) 

تعارف:(An Introduction)
اِ س سمینار کے مقالہ Seminar Paperمیں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کے مشہور عالم دین ، مجاہدِ آزادی ، امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؔ کی مشہور نابغۂ روزگار شخصیت کے شاعرانہ پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر مولانا آزاد کی شاعرانہ حیثیت اور شاعرانہ کمالات کو اِس مقالہ میں اجاگر کیا گیا ہے۔ 
مقاصد :(OBJECTIVES)
اِ س سمینار کے مقالہ Seminar Paperمیں جن مقاصد کوپیشِ نظر رکھا گیا ہے، کچھ اِس طرح ہیں: 
(۱) مولانا آزاد کی عبقری شخصیت کے شاعرانہ پہلو کو اجاگر کرنا۔
(۲) مولانا آزاد کی شاعری کااجمالی جائزہ لینا۔ 
(۳) مولانا آزاد کی شاعری کا احاطہ کرنا۔
(۴) اردو میں مولانا آزاد کا بحیثیتِ شاعر تعارف کروانا۔
(۵) مولانا آزاد کی غزلوں کے اندازِ بیان اورمحاسنِ کلام کی نشاندہی کرنا ۔

بدھ، 24 اپریل، 2013

اردو تحقیق کے حدود اور دائرۂ کار ۔ چند معروضات




اردو تحقیق کے حدود اور دائرۂ کار ۔ چند معروضات


مجھے حضرت خمارؔ بارہ بنکوی کا ایک شعر بہت پسند ہے ، میں اسی سے اپنے مقالے کا آغاز کرنا چاہتا ہوں ؂
گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے 
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے !
بنیادی طور پر تحقیق کی دو قسمیں کی جاسکتی ہیں، سندی تحقیق اور غیر سندی تحقیق ؛کسی سند یا ڈگری کے حصول کے لئے جو تحقیق کی جاتی ہے ، سندی تحقیق ہے ، اور وہ تحقیق جو محض برائے تحقیق ہوتی ہے ‘ غیر سندی تحقیق کہلاتی ہے ۔ 
فی زمانہ مروجہ جامعاتی تحقیق کا تعلق بالعموم سند ی تحقیق ہی سے ہے ۔ آج تحقیق جن مسائل سے دوچار ہے ‘ اس کی اساس یہی ہے کہ محقق

تمہیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ


تمہیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ 


میر اکبر حسین اکبرؔ الٰہ آبادی کا درجِ بالا مصرعہ ، جسے میں نے مضمون کا عنوان اور سرنامہ بنایا ہے ، بلاشبہ اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کا عنوان بھی ہے۔ جس عہد سے آپ کا تعلق تھا ، وہ انقلاباتِ زمانہ ، تہذیبی روایات کی شکست و ریخت ، قدیم و جدید کے تصادم و ٹکراؤ اور تمدنی و معاشرتی اقدار کی تبدیلی کا زمانہ تھا۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنے پُر آشوب عہد کے متغیر حالات سے شدید تاثر قبول کیا تھا ۔ تہذیبی تصادم اور معاشرتی اقدار کی تبدیلی پر انہیں قلبی صدموں سے دوچار ہونا پڑا ۔ مگرانھوں نے ایک کامیاب فنکار اور عظیم شاعر کی حیثیت سے اپنے عہد کی تہذیبی کشمکش کو طنز و مزاح اور ظرافت و

مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری



مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری

فطرتِ انسانی کے دواعی میں سے ایک شدید داعیہ ‘ اپنی میراث کا تحفظ اور اس کو مستقبل تک منتقل کرنا بھی ہے۔’ میراث‘کے عموم میں ہماری تہذیب وروایات ، احساسات وتاثرات، شخصیات اور کردار سبھی شامل ہیں، اور اسی مقتضائے فطرت کے باعث ہمارے سوانحی ادب ، تاریخ و تذکرہ نویسی کی آبیاری ہوتی ہے اور ہمارے ادب کی صنف مرقع نگاری یا خاکہ نگاری بھی اسی ذوق کی رہینِ منّت ہے۔
مرقعے ، دراصل ہمارے تجربات و مشاہدات اور تاثرات و احساسات کا مظہر ہوتے ہیں، ہمارے متعلقین ‘ احباب اور شخصیات کے مرقعے گویا تاریخ کا حصہ اور مستقبل کی امانت ہوتے ہیں۔
اردو ادب کی جدید نثری اصناف میں قلمی تصویر کشی اور مرقع نگاری کو ایک صنف کی حیثیت حاصل ہے۔ زمانۂ قدیم ہی سے سوانح نگاروں اور تذکرہ نویسوں کے ہاں اس کے نقوش ملتے ہیں۔ جیسے :’’آبِ حیات‘‘ ( محمد حسین آزاد) ’’سیررجال ونسواں‘‘( عبدالحلیم شررؔ ) ’’یادِایام‘‘ (عبدالرزاق کانپوری) ’’وضعدارانِ لکھنؤ‘‘ ( مرزا ہادی رسواؔ )وغیرہ ۔ لیکن مستقل صنف کی حیثیت سے مرقع نگاری میں اولیت مرزا فرحت اللہ بیگ کی تسلیم کی گئی ہے ، جنہوں نے ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی ۔کچھ ان کی ‘کچھ میری زبانی‘‘ لکھا۔
اردو میں بہت سے لوگوں نے مرقعے لکھے ہیں ‘ جو لکھنے والوں کے ذوق و مزاج اور افتادِ طبع اور اسلوبِ نگارش کے آئینہ دار ہیں۔ اردو کے چند مشاہیر مرقع نگاروں اور ان کی کتابوں کے نام یوں ہیں: ’’ گنج ہائے گراں مایہ‘‘ ،’’ ہم نفسانِ رفتہ ‘‘( پروفیسر رشید احمد صدیقی )’’چند ادبی شخصیتیں‘‘، ’’گنجینۂ گوہر‘‘( شاہد احمد دہلوی )’’ پسِ پردہ‘‘،’’ قلمی چہرے‘‘( خواجہ حسن نظامی)’’یارانِ کہن ‘‘ (عبدالمجید سالکؔ ) ’’چند ہم عصر‘‘ (مولوی عبد الحق ) ’’دہلی کی چند عجیب ہستیاں‘‘ ( اشرف صبوحی) ’’کیا خوب آدمی تھا‘‘( سید عابد حسین) ’’جانے والوں کی یاد آتی ہے‘‘(صالحہ عابدحسین) ’’یادِ یارِ مہربان‘‘ (پروفیسر خواجہ احمد فاروقی )’’دید و دریافت ‘‘(پروفیسر نثار احمد فاروقی ) ’’آدمی نامہ‘‘، ’’سوہے وہ بھی آدمی‘‘ ،’’ آپ کی تعریف ‘‘، ’’چہرہ در چہرہ‘‘ ،’’ ہوئے ہم دوست جس کے‘‘( مجتبیٰ حسین) ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ ( جمیلؔ جالبی)’’معاصرین ‘‘، ’’نثری مرثیئے / وفیاتِ ماجدی‘‘ ( مولانا عبدالماجد دریاآبادی ) ’’قلمی تصویریں /ماہنامہ بیسویں صدی‘‘ (خوشترؔ گرامی )’’ وہ جنہیں کوئی نہیں جانتا‘‘ ( علامہ انور ؔ صابری ) ’’چہرہ چہرہ داستان‘‘ (پروفیسر سلیمان اطہر جاویدؔ ) ’’شخصیات ‘‘ (مولانا ابوالاعلیٰ مودودی) ’’یادِ رفتگاں‘‘/ماہنامہ معارف (علامہ سید سلیمان ندوی) ’’یادِ رفتگاں‘‘/ماہنامہ فاران( مولانا ماہرؔ القادری )’’بزمِ رفتگاں‘‘ (دو جلدیں) (سید صباح الدین عبدالرحمن )’’نقوشِ رفتگاں‘‘( مولانا جسٹس تقی عثمانی)’’پرانے چراغ ‘‘( تین جلدیں) ( حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ) ’’دید و شنید‘‘ ( مولانا رئیس احمد جعفری ندوی )’’بزمِ ارجمنداں‘‘،’’ نقوشِ عظمتِ رفتہ ‘‘، ’’کاروانِ سلف‘‘ (محمد اسحاق بھٹی)...وغیرہ ۔
’’جنوبی ہند میں اردو مرقع نگاری ‘‘ پرایس.وی.یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ اِس دوروزہ نیشنل اردو سیمینار میں‘ راقم الحروف ’’مولانا محمد ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری ‘‘ کے موضوع پر چند طالب علمانہ معروضات پیش کرنے کی جسارت کررہاہے۔
قبل اس کے کہ ساحلی آندھراپردیش کے ممتا زصاحبِ قلم کی مرقع نگاری کا تجزیہ کیا جائے ‘ جنہوں نے تقریباً ڈیڑھ سو (150) خاکے /مرقعے لکھے ہیں ، یہ مناسب ہے کہ ان کے مختصر سوانحی حالات بھی ذکر کئے جائیں۔ 
مولانا محمد ثناء اللہ عمری ‘ ساحلی آندھراپردیش کے ایک قصبہ ’کٹانچور‘ تحصیل گڈیواڑھ ‘ (ضلع کرشنا) میں ۱۹۴۰ء ؁ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ دارالسّلام ‘ عمرآباد ‘تمل ناڈو کا رخ کیا، اور فضیلت کی سند حاصل کی۔حیدرآباد دکن میں دائرۃ المعارف العثمانیہ ( جامعہ عثمانیہ) میں ملازمت پر مامور ہوگئے۔ اس دوران شبینہ کالج سے بی .اے اور جامعہ عثمانیہ سے انگریزی ادب میں ایم.اے کی ڈگری حاصل کی۔ 
مچھلی پٹنم کے ہندو کالج میں لکچرراور صدر شعبۂ انگریزی ہوئے۔ ملازمت کے دوران رخصت پر ایک طویل عرصہ تک جامعہ دارالسّلام ‘ عمرآباد کے شعبۂ تحقیقاتِ اسلامی کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ 
مولانا ثناء اللہ عمری ۱۹۹۸ء ؁ میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد وطن ہی میں مقیم ہیں۔تحقیقی و تصنیفی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ مولانا ثناء اللہ عمری بسیار نویس ہیں، بقول مولاناحفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی: 
’’ قلم کی دنیا میں قدم رکھے پورے چالیس سال کی عمر ہوچکی ہے۔ انگلیاں چاہے ٹیڑھی اور بوڑھی ہوگئی ہوں ‘ مگر ان کا اشہبِ قلم ’ابھی تو میں جوان ہوں ‘ گنگناتے ہوئے سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ صفحۂ قرطاس پر اس کی روانی اور جولانی ( چشمِ بد دور) دیدنی اور باعثِ حیرانی ہے۔ گوناگوں عناوین پر مضامین کے انبار لگاتے جارہے ہیں‘ اسلامیات اور ادبیات پر بھی، معاشرتی اور اصلاحی موضوعات پربھی.....‘‘
( ص:۸ مجھے یاد آنے والے)
مولانا ثناء اللہ عمری ‘ کے مضامین ومقالات ‘ ہند وپاک کے اخبارات ومجلات اور رسائل وجرائد میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔آپ کی مطبوعہ تصانیف یوں ہیں: ’’قرآن اور دعا‘‘ ، ’’ امثال القرآن‘‘، ’’ صدائے منبر ومحراب‘‘( دو جلدیں) ’’ تذکرۂ واجدی‘‘ ، ’’ علامہ سید رشید رضا ‘‘ (ترجمہ ) ’’ بات ایک مسیحانفس کی‘‘ ، ’’ تذکرۂ اسماعیل‘‘ ، ’’ مجھے یاد آنے والے‘‘ ،’’ نذرانۂ اشک‘‘ وغیرہ۔مؤخرالذکر دونوں مرقعوں کے مجموعے ہیں۔
مرقعوں کا مجموعہ ’’ نذرانۂ اشک ‘‘ ۱۹۹۷ء ؁ کو لاہور میں طبع ہوا اور ضیاء اللہ کھوکھر کے ادارہ ندوۃ المحدیثین‘ گوجرانوالہ ( پاکستان) سے شائع ہوا۔ اس میں پچاس مرقعے شامل کئے گئے ہیں۔اس میں شامل مرقعے ، گیارہ ذیلی ابواب میں تقسیم کئے گئے ہیں، جو بالترتیب یوں ہیں: ’’اہلِ خاندان، اہلِ قرابت، اساتذہ، اساطینِ ملت، بزگانِ دین، مردانِ قلندر، اللہ والے لوگ، چند علماء، سینیئر معاصرین، چند محسنین، جواں مرگ‘‘ ۔
مرقع نگار نے اعتراف کیا ہے کہ چار پانچ ایسے حضرات کے مرقعے شاملِ کتاب ہیں‘ جن کی بابت مرقع نگار کی خامہ فرسائی کی بنیاد دید پر نہیں شنید پر ہے ، اور مرقع نگار کو شیخ سعدی مرحوم کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ ع شنیدہ کَے بود مانندِ دیدہ۔
مولانا ثناء اللہ عمری لکھتے ہیں:
’’ ممکن ہے ، دید و شنید کے اس فرق سے ان دو قسموں کے مضامین میں بھی فرق پید اہوگیا ہو۔مؤخرالذکر قسم کی تحریریں یہاں صرف چھ ہیں، یعنی ابوالکلام،مولانا ابوالوفاء، مولانا ابوتمیم، مولانا بشیر احمد، منشی عبدالرحیم، پیش امام عبدالغنی۔ ان مضامین کی تحریر کا مقصد ذوقِ تذکرہ نویسی کی تسکین کا سامان کرنا ہے۔ ع ز شوقِ بندگی پروردگارے کردہ ام پیدا ۔
ان کی طبع واشاعت سے مقصود اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ ملک کے غیر معروف مقامات پر تمام تر خاک ہی نہیں چنگاریاں بھی رہی ہیں۔بقول اقبالؔ : ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!
’’... اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنوں ‘ پرایوں‘ کسی کے ذکر میں اعتدال کا رشتہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ یہ ذکرِ خیر ہے ،بڑوں کا، چھوٹوں کا ، برابر والوں کا، جن میں سے بہتوں کے دیئے ہوئے داغ ابھی تازہ اور ہرے
ہیں۔ .....‘‘(نذرانۂ اشک،ص:۹)
مولانا ثناء اللہ عمری کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ ’’ مجھے یادآنے والے‘‘ ہے ، جوحکیم اجمل خاں کی نگرانی میں دہلی میں طبع ہوا اور خود مرقع نگار نے شائع کیا۔ اس مجموعہ میں تین درجن (36) مرقعے شامل کئے گئے ہیں، جوبالترتیب اِن ذیلی عناوین کے تحت پیش کئے گئے ہیں۔’’ اساتذۂ کرام، اداروں کے سربراہ، رہنمایانِ فکر، علمائے کرام، اہلِ قلم حضرات، خدامِ دین، بزرگانِ دین، قرابت دار، دوست احباب۔‘‘ 
مولانا ثناء اللہ عمری نے ’مقدمہ‘میں وضاحت کی ہے کہ:
’’ ۳۵۔۳۶ حضرات میں سے بمشکل آٹھ دس ہی ایسے نکلیں گے ‘ جو علمی حلقوں میں متعارف ہیں، بقیہ افراد عالم و فاضل اور خادمِ دین ہونے کے باوجود گمنام تھے اور گمنام ہیں، ایسے لوگوں کے تعارف ہی کے لئے میں نے قلم اٹھایا ہے۔ اور یہ بتانے کی حقیر سی سعی کی ہے کہ عام طور پر ملک کے جن گوشوں کی بابت پڑھے لکھے لوگوں کو بھی سان وگمان نہیں ‘ وہاں بھی دینِ حق کے خادم ہوئے ہیں، اور یہ مقامات زبانِ حال سے گویا ہیں: ع 
’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی‘۔
مولانا حافظؔ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی ’’ مجھے یاد آنے والے ‘‘ میں شامل مرقعوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مولانا ثناء اللہ صاحب قلم کی امانت اوراس کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے ہیں، واقعہ اور مو ضوع کے تمام جزئیات پر مکمل تحقیق کے بعد ہی قلم اٹھاتے ہیں ،اشخاص پر لکھیں ھے تو شخصیت کے تمام پہلووں کا جائزہ پیشِ نظر ہوگا ، غلو اور مبالغہ تو دور کی بات ، سنی سنائی باتوں اور ظن وقیاس کو بھی جھٹک دیتے ہیں ، مرحومین پر لکھنے والوں کے بارے میں سعادت حسن منٹو نے طنز کیا تھا کہ وہ ’’ مرنے والوں کو لانڈری بھیج دیتے ہیں ، جب دھل دھلا کر آتے ہیں تو انھیں رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں ‘‘، منٹو کے طنز کا رخ اور لوگوں کی طرف تو ہو سکتاہے ،کیونکہ زمانے کا عام چلن یہی ہے، لیکن ہمارے دوست اس عام روش سے بہت پرے ہٹ کر چلتے ہیں ، جسے جیسا پایا ویسا ہی پیش کردیا ، لوگوں کو اونچا کرنے کی کوشش کی اور نہ قد آور شخصیتوں کے قد وقامت میں کچھ کمی کی ۔
زیر نظر کتاب میں آپ کی مختلف مراتب کے لو گوں سے ملاقات کرائی جائے گی ،کچھ مشہور نامی گرامی اساطین ہوں گے ، بین الاقوامی اور ملک گیر شہرت کے مالک ہوں گے ، ملی اور ملکی خدمات پر جان نثار کرنے والے ہوں گے ، علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں خون پسینہ ایک کرنے والے ہوں گے ، منبر و محراب کے شہسوار بھی ہوں گے ، گمنام درسگاہوں کے خاموش خدمت گزار ہوں گے ، اور ان سب کے جلو میں کچھ بے نام و نشان حقیر و فقیر بھی ہوں گے جو دنیا کے لئے آفتابِ عالم نہ سہی ، مگر اپنوں کے لئے چراغِ خانہ ، قیمتی متاع ،اور ناقابل تلافی سرمایہء حیات رہے ہوں گے ، مجموعے میں ان کے تذکرے پر آپ حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ؂ 
تنکے بھی چن لئے کہ شریکِ بہار تھے۔ ‘‘ (مجھے یاد آنے والے ،ص: ۱۰) 
مولانا ثناء اللہ عمری کو اللہ تعالیٰ نے بلاکا حافظہ عطا کیا ہے ، جب کسی کی مرقع کشی کرتے ہیں تو گویا اپنے ذہن کے دریچہ کو کھول دیتے ہیں، جہاں یادداشت کا ایک ٹھاٹیں مارتا سمندر ‘ ایک بحرِ ناپیدا کنار موجود ہوتا ہے، اور جب آپ اس بحرِ موّاج میں غرق ہوجاتے ہیں، تو صفحۂ قرطاس پر واقعات اور متعلقات کی ایک دنیا مرقع کی صورت جگمگانے لگتی ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری صاحب کے مرقعوں میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ آپ اپنے مرقعوں میں‘ ایک دوست ، ایک عزیز، ایک عقیدت مند، ایک نیازمند،ایک شاگرد، ایک طالب علم، ایک عالمِ دین کی حیثیتوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔
اس بات کی صراحت ‘ تحصیلِ حاصل اور وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ مرقع نگاری کے عام رویہ اور عام روش کے تحت ‘ مولانا ثناء اللہ عمری کے مرقعوں میں بھی مرقع نگار کی شخصیت جھلکتی ہے۔ آپ صاحبِ مرقع کی شخصیت کے گرد اپنے روابط و تعلقات ‘ حالات و واقعات اور تجربات ومشاہدات کے تانے بانے بنتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کے مرقعوں میں تعلقات کی دھوپ چھاؤں بھی ہے، خط و کتابت کے حوالے بھی ہیں، شخصیات کو پرکھنے کا ایک منفرد انداز بھی ہے۔ گویا دید و شنید کی ایک دنیا آباد ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کے ضمن میں ‘ آندھراپردیش، تمل ناڈو اور کرناٹک کے مختلف مقامات کی سیر ہوجاتی ہے۔ مچھلی بندر، ایلور، کٹانچور، وجئے واڑھ، الولپوڈی، پڈنہ،
رائے درگ، رائے چوٹی، رائے ورم، محل، عمرآباد، پیارم پیٹ، وانمباڑی، آمبور، ویلور، آرکاٹ، مدراس، بلہاری، سرسی، شولاپور، وغیرہ مقامات کا ذکر کہیں مفصل ‘ کہیں مختصر ، کہیں ضمناً، آپ کے مرقعوں میں ہوتا ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری میں آپ کی مادرِ علمی ‘ ’جامعہ دارالسّلام‘ عمرآباد‘( تمل ناڈو) کا ذکر بہت آتا ہے۔یہ صورتِ حال پروفیسر رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں ’’ علی گڑھ‘‘ سے مشابہ ہے کہ ع ’ جہاں جائیں وہاں تیرا فسانہ چھیڑدیتے ہیں‘..... 
مولانا ثناء اللہ عمری ‘ مسلکاً اہلِ حدیث ہیں، دیگر مسالک کے لئے روادار، بزرگوں کے عقیدت مند، تصوفِ صحیح کے قائل، لیکن مسلکی شیفتگی اور شعور کے بھی حامل ہیں،اور شایداسی لئے بالعموم آپ کے مرقعے علمائے اہلِ حدیث پر ہیںیا ضمناً مرقعوں میں جماعتِ اہلِ حدیث کا نام ضرور آجاتا ہے،آپ کے ہاں تعصب اور عصبیت نام کو بھی نہیں ہیں، کہ آپ کا مسلک ’راہِ اعتدال‘ ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری کا اسلوبِ نگارش اپنے اند رایک طرح کی جاذبیت اور دلکشی رکھتا ہے، تصنع سے پاک ، تکلف برطرف ، سادہ اسلوبِ تحریرآپ کا خاصّہ ہے۔ نثر میں بر محل اشعار یا مصرعے لطف دے جاتے ہیں۔ اردو کے علاوہ فارسی اشعار بھی آپ کی تحریر میں بکثرت ہوتے ہیں۔ آپ کی مرقع نگاری کا اسلوبِ نگارش اور رنگ ڈھنگ ‘ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی یاد دلاتا ہے۔ فی الواقع ، ’سچ‘ ’صدق‘ اور ’صدقِ جدید ‘ کے ’’دریاآبادی اسلوب ‘‘کے ایک زخم خوردۂ عقیدت ‘ مولانا ثناء اللہ عمری بھی ہیں۔ اِس ضمن میں مولانا ثناء اللہ عمری لکھتے ہیں:
’’دلّی اور لکھنؤ کے دبستانوں کی ٹکسالی زبان ، سیاق وسباق کے مناسب الفاظ، امثال، استعارے اور محاورے، مختصر بول، سونے کے مول تول، حشو وزوائد سے پاک، چھوٹے چھوٹے میٹھے اور رسیلے جملے ، دل میں رکھ لینے کے قابل، مبالغہ اور غلوسے اجتناب، نہ گراں گزرنے والااطناب، نہ کھٹکنے والااختصار، ہر صاحبِ سوانح کی طرف حسبِ استحقاق توجہ اور التفات، ابتداء اور اختتام کا ڈرامائی اسلوب ، انشاء پردازی کا اعلیٰ نمونہ ؂
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست !
نتیجہ یہ کہ میں نے یہ تحریریں پڑھی اور بار بار پڑھی ہیں، اسی بار بار کی تکرار سے میرے شوقِ خامہ فرسائی اور ذوقِ خاکہ نویسی کو مہمیز ملی ہے۔ اور مجھ دیہاتی نے اِس میدان میں قدم رکھا ہے ؂
امید ہست کہ بیگانگئ عرفیؔ را 
بدوستی سخنہائے آشنا بخشند۔‘‘ 
( مجھے یاد آنے والے، ص: ۱۳) 
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کا تعارف کراتے ہوئے ضیاء اللہ کھوکھر نے آپ کی مرقع نگاری کی خصوصیات اور اسلوبِ بیان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ مولانا نے معلومات کی فراہمی میں ذاتی تعلقات ، تاثرات، مشاہدات، اور تجربات سے کام لیا ہے۔ اورمعلومات کے حصول میں خطوط ، تصانیف اور شعر وشاعری کو مناسب اہمیت دے کر نتائج اخذ کئے ہیں۔ مصنف نے قارئین کو ایسی معلومات سے روشناس کرایاہے ، جن کا کسی اور جگہ سے حاصل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا ۔ مولانا کی اس کاوش سے وہ معلومات محفوظ ہوگئی ہیں ،جو شاید کبھی بھی صفحۂ قرطاس پر نہ آسکتیں۔ مولانا کی یہ ایسی ادبی ، تاریخی اور سوانحی خدمت ہے‘ جسے مستقبل کا کوئی مؤرخ اور محقق نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ مولانا نے بلاشبہ صرف مستندمعلومات پر ہی انحصار کیا ہے، اور ان پر مکمل اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
مولانا کا اسلوبِ بیان سادہ، طرزِ نگارش ادبی اور مشاہدہ وسیع ہے۔بڑی روانی کے ساتھ زیرِ قلم شخصیت کی فکری اور عملی زندگی کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کرتے چلے جاتے ہیں کہ اس کی خارجی اور داخلی کیفیت‘ نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ مولانا کے قلم سے نکلنے والے جملے ، قلب کے شدید تاثرات اور جذبات کے آئینہ دار ہیں۔اسی لئے براہِ راست دل میں اتر تے ہیں‘ اور قاری شدتِ احساس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔‘‘
( نذرانہ اشک‘ص: ۱۲)
ضیاء اللہ کھوکھر مزید لکھتے ہیں:
’’ مولانا خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ ‘ حلیہ نگاری میں بھی کمال رکھتے ہیں۔ جہاں سیرت کے بے نقاب اور پوشیدہ گوشے واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں، وہاں شخصیت کی ایسی جھلک دکھادیتے ہیں کہ اصل تصویر نظروں میں پھر جاتی ہے۔جن اشخاص کے ذکر سے اس کتاب کو مزین کیا گیا ہے ، وہ پوری آب وتا ب کے ساتھ ایک بار پھر زندگی سے ہمکنار ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔خاکے میں ایسا رنگ بھرتے ہیں کہ جیتی جاگتی ‘ چلتی پھرتی اور بولتی چالتی زندہ تصویر سامنے آجاتی ہے۔ان کے تراشیدہ قلمی چہرے ، اصلی چہروں سے زیادہ بھلے لگتے ہیں۔ یہ خاکے اس قدر حقیقی اور سچے ہیں کہ پڑھنے والابے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ میں تو اس شخصیت سے واقف ہوں ‘ جس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ مولانا جس شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں ‘ وہی گفتگو کا مرکز و محور رہتی ہے۔ خود اپنی ذات کو حاوی نہیں ہونے دیتے۔
خاکہ نویسی کی روایت میں یہ اہم پیش رفت ہے۔اردو ادب کے سوانحی سرمایہ ء علمی میں اسے بلند مقام حاصل ہوگا۔ یہ کتاب اپنے خاکوں سمیت زندہ رہنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔سبھی خاکوں میں بہت سے جملے اور نکتے دعوتِ انتخاب دے رہے ہیں۔ لیکن یہ اپنے مقام پر ہی پر لطف اور پر کشش معلوم ہوتے ہیں۔‘‘( نذرانہء اشک، ص: ۱۳) 
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کے بارے میں ایک تصریح ‘ یہ بھی ہے کہ آپ کے مرقعوں کے مجموعہ ’’ نذرانۂ اشک ‘‘ اور ’’ مجھے یاد آنے والے‘‘ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ نے شاید مرحومین ہی کے مرقعے لکھے ہیں۔ بالعموم یہ تاثر صحیح بھی ہے۔ لیکن آپ نے چند زندہ لوگوں کے بھی مرقعے لکھے ہیں۔ جیسے ’’میرے اساتذہ‘‘ ایک طویل مضمون ہے ‘ جو کئی مرقعوں پر مشتمل ہے،اس میں چند مرحومین کے علاوہ اکثر باحیات لوگوں کی مرقع کشی کی گئی ہے۔
’صحیفۂ عمرآباد ‘ ۱۹۷۷ ؁ء میں مولانا سید شاہ صبغت اللہ بختیاری پر جو مرقع ہے ، صاحبِ مرقع سے مرقع نگار کے تعلقات و روابط کا آئینہ دار ہے۔اور جب صاحبِ مرقع کا ۱۹۹۳ء ؁ میں انتقال ہوا تو مولانا ثناء اللہ عمری نے ماہنامہ راہِ اعتدال ‘ عمرآباد کی چھ قسطوں میں ایک مبسوط سوانحی خاکہ تحریر کیا۔
مولانا بختیاری پر جو مرقع ۱۹۷۷ ؁ء میں لکھا، اس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے :
’’وطن رائے چوٹی ہے، اور میری رائے ہے کہ یہاں اس چوٹی کا کوئی اور عالِم نہیں اٹھا۔بقول خود مولانا نے دارالعلوم یوبند میں بارہ سال زانوئے ادب تہہ کئے ہیں ‘ اور جامعہ دارالسلام عمرآباد میں بارہ ہی سال درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ بڑی پر لطف اور باغ وبہار طبیعت پائی ہے ۔ ساتھ ہی مزاج قلندارانہ ہے۔یہ اجتماعِ ضدین کھلتا نہیں ۔مولانا کی ذات میں خوب نکھرتا ہے۔گھنٹوں ساتھ رہئے، مولانا اکتائیں گے نہ مولانا کا مخاطب۔ بات میں بات پیداکرنا آپ کا ایسا کمال ہے‘ جیسے لگتا ہے وہ آپ ہی کے ذہن کا حصہ ہو۔ہر رنگ کی محفل میں کھپ جائیں گے ، بلکہ مرکزِ توجہ بن جائیں گے۔ بسا اوقات مقفیٰ اورمسجع عبارتوں سے پر ہوتی ہے، جو کہ ذوقِ ادب پر بھی گراں نہیں گزرتی ، بلکہ سننے والے کے آتشِ شوق کو تیز تر کردیتی ہے۔ 
ساداتِ بختیار سے نسبت رکھتے ہیں ‘ لیکن اس دوہری نسبت پر نہ نازاں ہیں‘ نہ اس نسبت کے احساس سے بے خبر۔ مطلب یہ کہ اس شرف سے عاید ہونے والے فرائض و حقوق سے اغماض نہیں کرتے ۔ مولانا سید حسین احمد مدنی مرحوم کے خصوصی شاگرد ، مولانا ابوالکلام آزاد کے مداح ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے رفیقِ سابق، کانگریسی کیمپ کے قدردان، لیگ کے ناقد ، حنفی مسلک کے پیرو ، دیگر مسالک کے لئے روادار، حدیث وفقہ پر گہری نظر رکھنے والے ، علمِ تفسیر کے رمز شناس ، اردو زبان کے دلکش متکلم، بحرِ تصوف کے غوطہ زن، جامعہ دارالسلام کے سابق استاد، مصحف مرحوم کے شریک مدیر اور مقالہ نگار۔ 
یہ ہے مختصر الفاظ میں مولانا کا سراپا۔یہ ساری حیثیتیں مولانا بختیاری میں ہیں، یارہی ہیں۔..........‘‘
(صحیفہ ، جامعہ دارالسّلام‘ عمرآباد،ص:۴۲۱)
علامہ غضنفر حسین شاکر ؔ نائطی‘ عمرآباد کے ان اساتذہ میں سے ہیں ‘ جن سے مولانا ثناء اللہ عمری نے پڑھا ہے۔آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ ایک صحبت میں ‘ اِس بے بضاعت نے ’’ غت ربود‘ ‘ قسم کا ایک سوال کردیا۔ کچھ دیر حسبِ عادت توقف فرمایا۔ پھردوچار بار گویا اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ کیسا لفظ ہے؟ ، مجھ سے فرمایا کہ کہاں دارد ہواہے ؟ میں نے مومن خان مومن ؔ کا یہ شعر پڑھا ؂
مومنؔ آ کیشِ محبت میں کہ سب کچھ ہے روا 
حسرتِ حرمتِ صہبا و مزامیر نہ کھینچ ! 
اب عقدہ حل ہوگیا تھا۔نیم دراز تھے ، اٹھ بیٹھے، آواز بلند ہوگئی اور ’آ‘ لفظِ ندا یا تخاطب کو ’کیش ‘سے الگ پڑھا ۔ لیکن سائل کی نادانی کو شرمندہ نہیں کیا۔( صحیفہ ،عمرآباد، ص: ۳۹۷)
مولانا ثناء اللہ عمری نے مولانا ابوالجلال ندوی پر جو مرقع لکھا ہے ‘ اس کا ایک اقتباس دیکھئے :
’’...... مولانا ابواجلال صاحب ‘ عمرآباد میں’’ عمرلائبرری ‘‘ کے ایک کمرے میں قیام فرماتے ۔ شب وروزکا مشغلہ یہی لکھنا پڑھنا تھا، مطبخ سے کھانا بھی وہیں پہنچ جاتا تھا۔ گاہ گاہ کوئی دوست ادھر آنکلتا اور رسمی پرسشِ مزاج کے بعد دریافت کرتا کہ مولانا ! آپ نے کھانا کھالیا؟ مولانا جیسے چونک اٹھتے ، کتاب سے نظر ہٹاکر کھانے کے برتنوں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال لیتے۔ او ر جواب دیتے کہ ہاں کھالیا ہے۔حالانکہ بات یہ ہوتی تھی کہ مولانا کو اپنے کام میں ہمہ تن مشغول دیکھ کر چپکے سے کوئی کتا پہنچ جاتا ، کھاپی کر اپنا کام کرجاتا، اور مولانا اپنی غائب دماغی کی بدولت یہ خیال کرتے کہ کھاچکے ہیں۔
میرے ایک استاد ‘ حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب اعظمی فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ انہوں نے مولانا ابوالجلال ندوی سے پوچھا ،مولانا! آپ بحیثیتِ ممتحن‘ جامعہ محمدیہ‘ رائے درگ تشریف لے گئے ، مدرسہ سے معاوضہ کیا ملا؟ جواب دیکھئے، کیا دلچسپ ہے ‘ فرماتے ہیں ‘ ہم نے توگنے نہیں ‘ بہت ہی روپیئے دئیے ہوں گے ، اس لئے کہ ہم خرچ کئے جارہے ہیں ‘ تاہم رقم ابھی باقی ہے۔ ! وہی کامل محویت و استغراق کا عالم ، زندگی کی بے ضرر آسائشوں اور آرائشوں سے بھی کچھ سروکار نہ تھا۔ پھٹا پرانا پہن لیا ، موٹا جھوٹا کھالیا ، ...کام سے کام رکھا ۔ ؂
پید اکہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ 
افسوس! تم کو میر ؔ سے صحبت نہیں رہی! 
( مجھے یادآنے والے، ص:۱۲۱)
راقم الحروف کواِس بات کا شدید احساس ہے کہ مولانا ثناء اللہ عمری کی تحریروں کے بہت کم نمونے پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ اس سلسلہ میں انتخاب خود ایک مسئلہ ہے ۔ وقت کی قلت اور اختصار کے پیشِ نظر اس مختصر سے جائزہ کو تعارف پر محمول کیا جائے۔ 
یہ ہیچ مداں مقالہ نگار ، اِس بات کا یقینِ کامل رکھتا ہے کہ مولانا محمد ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کی جانب التفات کیا جائے گا،آپ کی مرقع نگاری کا جائزہ لیا جائے گا۔محققین اور ناقدینِ ادب ‘ مولانا ثناء اللہ عمری ‘ جیسے ایک مرقع نگارکو درخورِ اعتناء سمجھیں گے ‘ جو کسی ستائش کی تمنّا اور صلہ کی پرواہ کئے بغیر،ایک دورافتادہ مقام پر، فکر وفن کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہے۔ 

منگل، 23 اپریل، 2013

آندھراپردیش میں اردو زبان کاموقف


آندھراپردیش میں اردو زبان کاموقف
ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری 
شعبۂ اردو ، گورنمنٹ ڈگری کالج ، پلمنیر 

آندھراپردیش بھارت کا وہ پہلا صوبہ ہے ، جس کی تشکیل لسانی بنیاد پر 1953ء میں عمل میں آئی ۔ پوٹی سری راملو کے مرن برت کے نتیجہ میں مدراس پریسی ڈنسی سے ایک علاقہ کو الگ کرکے یکم اکتوبر 1953ء کو ریاستِ آندھرا پردیش کی بنیاد ڈالی گئی۔ جس کا صدر مقام کرنول طے پایا تھا۔ تاہم بعد میں اس علاقے کو سابقہ حیدرآباد اسٹیٹ کے تلگو زبان بولنے والوں کے علاقہ کے ساتھ ضم کرکے موجودہ ریاست یکم نومبر 1956ء کو بنائی گئی۔ ریاست کا صدر مقام حیدرآباد قرار پایا۔
اردوزبان کو قدیم ریاستِ حیدرآباد میں انیسویں صدی کے اواخر ہی سے سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس میں جن لوگوں کی کوششوں کا دخل ہے ، ان میں خصوصاً صدرالمہامِ عدالت بشیر الدولہ، صدرالمہام مکرم الدولہ، مولوی مشتاق حسین، حاکمِ وقت نواب میر محبوب علی خاں اور ان کے فرزند حاکمِ وقت نواب میر عثمان علی خاں‘ وغیرہ کی کوششوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔
آندھراپردیش کی تشکیل عمل میں آنے کے بعد ‘ اردو زبان کی حالت اگرچہ کے قانونی طور پر حاصل تھی ، لیکن عملی طور پر اردو کو رائج کرنے کے لئے ایک طویل مدت درکار تھی ۔ جس میں اہلِ اردو کی کوششوں کو بھی دخل تھا۔ جمہوریت میں چونکہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں‘ اور حکومت کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ۸۰ کی دہائی میں اور ۹۰ کی دہائی میں اردو زبان کے دستوری موقف کی عمل آوری کے لئے کوششیں تیز ہوگئیں ۔ 
قانون تو ۱۹۶۶ء ؁ میں منظور ہوگیا تھا، لیکن ۱۹۷۷ء ؁ میں نافذ کیا گیا۔ لیکن ۸۰ کی دہائی تک بھی عمل میں نہیں آیا ۔اس کے لئے ۱۹۸۲ء ؁ میں اہلِ اردو کی ایک اڈہاک کمیٹی کا قیام عمل میں آیا، جس نے اردو زبان کے حق کے لئے احتجاجات کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا ۔ سب سے پہلے ۱۹۸۸ء ؁ ۔۱۹۸۷ء ؁ میں سکرٹیریٹ کے قریب ایک اجتماعی دھرنا کیا گیا ۔پھر حیدرآباد میں ، چارمینار کے دامن میں ‘ ایک زنجیری بھوک ہڑتا ل شروع کی گئی ، جو گیارہ دنوں تک چلی ۔ جب احتجاجات سے جب کام نہ نکلا تو ، ایک تاریخی ہڑتال کی شروعات کی گئی ۔جو آٹھ مہینوں تک چلتی رہی۔ یہ اردو کی اپنی نوعیت کی سب سے لمبی ہڑتال تھی‘ جس کی مثال نہ صرف آندھراپردیش بلکہ سارے ہندوستان میں نہیں ملے گی۔ آٹھ مہینوں کے بعد ‘ پولس کمیشنر ٹی .ایس .راؤ نے ہڑتال ختم کرنے کی پُرزور اپیل کی ۔ تاہم ہڑتال کو ختم کرنے سے صاف انکار کردیا گیا، اور چیف منسٹر سے ملاقات کرنے او رراست بات چیت کرنے کے بعد چیف منسٹر نے جی .او .ایم.ایس. نمبر 281جاری کیا گیا۔ اس کے بعد آندھراپردیش میں اردو زبان وتعلیم کے راستے کھلتے گئے اور اردو دانوں کے دلوں سے یہ خوف دھیرے دھیرے ختم ہوتا گیا کہ حکومت ‘ اردو کی خیر خواہ نہیں ہے۔ 
اِس ہڑتال کو کامیاب بنانے میں اُس اڈہاک کمیٹی کا بہت بڑا ہاتھ تھاجو بعدمیں ایک باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار کرگئی، تنظیم جد وجہد اردو ۔ اس تنظیم کے عہدہ داروں اور کارکنوں میں ‘ جناب فصیح الدین مرحوم کا نام سرِ فہرست ہے ، جو ایک طویل مدت تک اردو کی بے لوث خدمات انجام دیتے رہے ۔ 
اردو بحیثیت دوسری سرکاری زبان :
حیدرآباد کے نوابوں نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر اس کو جو عروج عطا کیا تھا، اس کا جادو ، آج بھی سارے تلنگانہ میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ 1956ء تک آندھراپردیش میں اردو سرکاری زبان رہی ۔ اس کے بعد یہ رتبہ سرکاری طورپر تلگو کو دے دیا گیا۔ حکومت میں 1977ء میں اردو کو ایک علاقائی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ آندھراپردیش لنگویج ایکٹ 1966ء کے تحت ، آندھراپردیش کے گورنر نے جی. او. ایم . ایس . نمبر 472، مؤرخہ 4جولائی 1977ء کو ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعہ ، اردو کو تلگو کے ساتھ ایک زائد زبان کے طور پر استعمال کرنے کا حکم جاری کیاتھا۔ اِس حکم نامہ کے تحت اردو کو بعض ملازمتوں کے لئے ، دوسری زبان کی حیثیت سے ضروری قراردیا گیا۔ علاوہ ازیں ‘ دفتری معاملات میں‘ اردومیں پیش کی گئی درخواستوں کو اردو ہی میں جواب دینے کو ضروری قرار دیا گیا۔ اور جہاں کہیں 15%اردو بولنے والی آبادی موجود ہو ، وہاں اہم قوانین کو اردو میں جاری کرنے کے احکامات جاری کئے ۔ اردو تعلیم کے لئے بھی بعض رعایتیں دی گئی تھیں۔ اس حکم نامہ میں ‘ آندھراپردیش کے جن علاقوں کے لئے اردو کو دفتر کی زبان کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا، ان اضلاع کے نام درجِ ذیل ہیں: 
۱۔اننت پور ۲۔ کڈپہ ۳۔ کرنول ۴۔ عادل آباد 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکم نامہ سے اردو کو بہت کچھ فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ مگر جیساکہ ہوتا آیا ہے ، کبھی کبھار سرکاری حکم ناموں پر عمل آوری خاطرخواہ نہیں ہوتی ، یہی حال اس حکم نامہ کا بھی ہوا۔ سابق چیف منسٹر این.ٹی.راماراؤ کے عہد تک یہی صورتِ حال رہی ۔ 
سابق چیف منسٹر جناب چندرا بابو نائیڈو نے اردو زبان کی ترقی کی طرف خاصی توجہ کی ۔ اس خصوص میں ‘ انہوں نے کئی ایک قابلِ تقلید اقدامات کئے ۔ ان اقدامات میں آندھراپردیش کے بعض اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر قبول کرنے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ چیف منسٹر موصوف نے ، آندھراپردیش افیشیل لنگویج ایکٹ 1966ء اور 1977کے نوٹی فیکیشن کی روشنی میں مؤرخہ 18ستمبر 1996ء کو درجِ ذیل اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبا ن کی حیثیت دی گئی :
۱۔اننت پور ۲۔ کڈپہ ۳۔ گنٹور ۴۔ حیدرآباد 
۵۔ کرنول ۶۔ میدک ۷۔ نظام آباد ۸۔ رنگاریڈی 
اس حکم نامہ کے بعد 29جون 2002ء کو ایک اور نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا۔ جس کے تحت مزیدپانچ اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی تھی۔ یہ اضلاع ہیں:
۱۔ عادل آباد ۲۔ چتور ۳۔ محبوب نگر ۴۔ نیلور ۵۔ ورنگل 
اس طرح کل ملا کر ‘ آندھراپردیش کے 13اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی ۔ 

آندھراپردیش میں اردو کا موجودہ مقام:
آندھراپردیش میں اہم زبانوں میں ایک زبان اردو ہے ۔ جب کہ صوبہ کی دفتری زبان تلگو ہے ۔ تو اردو کو ایک زائد دفتری زبان Additional Official Languageہے ۔اعدادوشمار کے مطابق تلگو کے بعددوسرے نمبرپر آنے والی زبان اردو ہے ۔ قدیم مردم شماری کے مطابق ‘آندھراپردیش میں اردو بولنے والی آبادی 55.6لاکھ افراد ہیں ۔ ریاستی حکومت نے ان علاقوں کی نشاندہی کی ہے‘ جہاں لسانی اقلیت کی آبادی 15%یا اِس سے زیادہ ہے۔اور اس نشاندہی میں اضلاع اور اضلاع کے تعلقہ جات کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے۔ 
مقامِ افسوس ہے کہ سرکاری اعلانات اور احکامات کے باوجود ‘ باضابطہ اطلاق اور عملی کارروائی کا جہاں تک تعلق ہے ‘ کسی قسم کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ سابق وزیرِاعلیٰ وائی .ایس. راج شیکھر ریڈی کے زمانہ میں آندھراپردیش لینگویج کمیشن کے ذریعہ دوسری سرکاری زبان اردو والے اضلاع کا پہلا افیشیل ڈسٹرکٹس سمینار منعقد کیا گیا۔ لیکن کارروائی آگے نہ بڑھ سکی اور راہیں ہموار ہونے کے باوجود ترقی مسدود ہوکر رہ گئی۔ 

اردو بحیثیت دوسری سرکاری زبان۔موجودہ موقف :
آندھراپردیش کے 14اضلاع میں تلگو کے علاوہ اردو کو بھی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے ، تاکہ مندرجۂ ذیل دفتروں میں استعمال کیا جائے ۔ 
*ایک علاقائی زبان کی حیثیت سے سکرٹیریٹ ، منسٹیریل اور جوڈیشیل ملازمتوں کے ڈائرکٹ امتحانوں /رکروٹمنٹ میں اردو کا استعمال 
* گزیٹیڈ اور نان گزیٹیڈ ملازموں کے لئے ایک زبان کے امتحان کے لئے 
* جہاں ضروری ہے ، اردو میں دی گئی درخواستوں کے جوابات اردو ہی میں دیئے جائیں۔
* عدالتوں کی زبان کی حیثیت سے ، ریاست کے ہائی کورٹ ، دیوانی اور فوجداری عدالتوں میں استعمال کے لئے اور ضلعی عدالتوں میں ، درجِ ذیل اضلاع میں :
اننت پور، کڈپہ ، کرنول ، گنٹور ، عادل آباد ، حیدرآباد ، رنگا ریڈی ،
کریم نگر ،کھمم ، محبوب نگر ، میدک ، نلگنڈہ ، نظام آباد اور ورنگل ۔
پندرہ فیصد اردوبولنے والے ضلعوں میں ، ان تمام مقاصد کے لئے اردو کو استعمال کیا جائے : 
* ٹنڈر نوٹس جاری کرنے کے لئے اور چِٹ ٹنڈر نوٹس جاری کرنے کے لئے، تمام عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے شعبۂ R&B میں اردو زبان کو استعمال کیا جائے ۔ 
* سمکیات (فشریس ) کے دفتر میں ہراج اور جنرل آرڈرس کے لئے بھی اردو میں ایکشن نوٹس جاری کیا جائے۔ 
* سب انسپکٹر، سرکل انسپکٹر ، اور ایکسائز دفتروں میں ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے ۔ 
* محکمۂ جنگلات میں فارسٹ کے رینج آفیسرس ، منڈل کے سطح میں ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے۔ 
* گرام پنچایت ، منڈل پرجا پریشد اور ضلع پرجا پریشد میں بھی ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے ۔
* محکمۂ آب پاشی ( ایرریگیشن ) میں چِٹ ٹنڈرس ، ان تمام چھوٹے کاموں کے لئے ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے ۔ 
* ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اور منڈل ریوینیو آفیسرس اور ولیج میں پبلک نوٹس برائے اعتراض بھی اردومیں جاری کیاجائے ۔
* تمام اہم قوانین ، اصول اور قواعد اور اعلانات اردو میں جاری کیا جائے ۔ 
ریاستی حکومت نے صوبے کے صدرمقام پر ایک ڈائر کٹوریٹ برائے ترجمہ قائم کیا جائے ، جس میں تمام اہم قوانین ، اصول اور قواعد واعلانات وغیرہ اردو میں ترجمہ کئے جائیں ۔
دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کے احکامات ہی میں یہ حکم بھی شامل تھا کہ ’’ریاستی حکومت ‘ صوبے کے صدرمقام پر ایک ڈائرکٹوریٹ برائے ترجمہ قائم کرے گی ، جس میں تمام اہم قوانین ، اصول اور قواعد واعلانات وغیرہ اردو میں ترجمہ کئے جائیں ۔‘‘
اِس حکم کے مطابق آندھراپردیش کے صدرمقام حیدرآباد میں ڈائرکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن قائم کیا گیا ہے، جس میں اردو کا ایک باقاعدہ شعبہ ہے۔ ڈائر کٹر کی ماتحتی میں چار ڈپٹی ڈائرکٹر ہوتے ہیں ۔ دو اردو کے لئے اور دو تلگو کے لئے ۔ 
فی الحال سرینواس راؤ ‘ اس محکمے کے ڈائرکٹر ہیں اور محترمہ سِمّی اصغر صاحبہ اردو کی ڈپٹی ڈائر کٹر ہیں۔ اردو کے لئے ایک اور ڈپٹی ڈائرکٹر جناب نہال احمد صاحب ہیں۔ آپ دونوں کی ماتحتی میں کئی جونیئر ٹرانسلیٹرس اور کئی سینیئر ٹرانسلیٹرس کام کرتے ہیں ۔ یہ شعبہ کافی فعّال ہے ،اس کے تحت اب تک کئی سرکاری احکامات اور آرڈرس کاترجمہ اردو میں کیا جاچکاہے ۔ ریاستِ آندھراپردیش کے کئی ایکٹس ، بِلس، آرڈیننس، ڈیمانڈس کابھی اردو میں ترجمہ کیا جاچکا ہے ۔ اس کے علاوہ شعبۂ ترجمہ میں جنرل لیٹرس، الیکشن ورک اور سالانہ رپورٹوں کا بھی ترجمہ کیا جاچکا ہے ۔ اردو میں پائے جانے والے وقف کے دستاویزوں کو اوقاف کے قانون کے مطابق اردو سے انگریزی اور تلگو میں بھی ترجمہ کیا جاچکاہے ۔ 
آندھراپردیش میں ‘ اردو ایک سب سے بڑی اقلیتی دفتری زبان ہے جو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ آندھراپردیش میں موجودہ اردو زبان کا جو موقف ہے ‘کسی قدر اطمنان بخش اور مستقبل کی تابناکی کا احساس دِلاتا ہے۔ موجودہ آندھراپردیش میں اردو زبان کے موقف اور قانونی صورتِ حال سے متعلق موجودہ اعداد وشمار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ اردو میں احساسِ ذمہ داری کے ساتھ جمہوری طریقے سے اپنے آئینی حقوق کے مطالبہ کی سمت پیش رفت کی ضرورت ہے۔ 
آندھراپردیش میں اردو ‘ اگرچہ کہ دوسری سرکاری /دفتری زبان قرار دی جاچکی ہے ، لیکن عملی طور پر اردو کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ صوبے کے کلکٹریٹ دفاتر میں اور ضلعی سطح کے سرکاری دفاتر میں‘(چند ایک استثناء کے ساتھ )صرف کہیں کہیں اردو کا سائن بورڈ نظر آجاتا ہے ۔ انتظامیہ ‘ علاقائی صرف زبان تلگو کو اہمیت دے رہی ہے ۔ 
اردو کو سرکاری زبان قرار دئے جانے کے بعد سرکاری اداروں میں کم از کم اردو کا نفاذعمل میں آنا چاہیئے ۔ اسی طرح اردو مترجمین کا تقرر بھی سرکاری دفتروں میں کیا جانا چاہیئے ، لیکن عملی طور پر ایسا کوئی سرکاری دفتر نہیں ہے ‘ جہاں اردو کے مترجم کا تقرر عمل میں آیا ہو ۔ حالانکہ دوسری سرکاری زبان قرار دئے جانے کے بعد اردو میں درخواستوں کو قبول کرنا چاہیئے تھا۔
جب عملی سطح پر دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری سرکاری زبان سے متعلق ‘اِ ن تما م قوانین اور قواعد کا اطلاق صرف کاغذ پر ہو سکا ہے ۔ اہلِ اردو‘ اردو زبان کے عملی نفاذ کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ریاست بھر میں‘ اردو سے متعلق تمام کارروائی کو عملی طور پر شروع کرنے کے لئے بار ہا کلکٹروں سے نمائندگی بھی کی گئی ‘ لیکن اِس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ بلکہ چند اضلاع کے کلکٹر آفسوں میں سوائے تلگو کے کسی بھی زبان میں درخواستیں قبول نہیں کی جارہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے منظور کی گئی تمام قراردادوں پر عمل آو149ری کے لئے کلکٹریٹ کے تمام محکمے جوابدہ ہیں ، لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو پارہاہے ۔ 
حکومتِ آندھراپردیش کی جانب سے ایک افیشیل لینگویج کمیشن ‘ قائم کیا گیا ہے ۔ جس میں اردو کا ایک باقاعدہ شعبہ بھی ہے ۔ لیکن اس شعبے میں کام کرنے والے تمام افراد ‘ حکومت ہی کی طرح اردو کے نفاذ کے سلسلے میں لاپرواہی سے کام لیتے ہیں ۔ اردو کے لئے جو رقم اور فنڈس مہیا کئے جاتے ہیں ، اُس کا صحیح استعمال نہ کئے جانے کی شکایت مختلف شعبوں کی جانب سے کی جاتی رہی ہے ۔ 
اگر اہلِ اردو ‘ اوراردو تنظیمیں ‘ خاص طور پر انجمن ترقی اردو، اردو داں آبادی کی نمائدگی کرتے ہوئے انہیں اُن کا دستوری حق دلائیں اور اردو والوں میں اپنی زبان سے محبت کا دَم بھرنے کا عملی ثبوت پیش کرنے پر اصرار کریں توآندھراپردیش میں اردو بہ آسانی ایک دوسری سرکاری زبان کی حیثیت ‘ صرف آئینی اور کاغذی نہیں ‘ بلکہ عملی طور پر ایک کارآمد زبان کی حیثیت حاصل کرجائے گی ۔ 
استفادہ:
(۱) پروفیسر مصطفےٰ کمال۔ ’’ریاستِ حیدرآباد میں اردوزبان کی ترویج وترقی‘‘
(۲) ڈاکٹر اے.آر.فتیحی، علی گڈھ ۔ آن لائن مضمون ’’ آندھراپردیش میں اردو ‘‘‘
اس مضمون کو’ لینگویج اِن اِنڈیا‘ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتاہے ۔
(۳) ڈاکٹر اے. محی الدین باشاہ، صدرِ شعبۂ اردو ، گورنمنٹ ڈگری کالج، پلمنیر
’’ضلع چتور میں اردو بحیثیت دوسری سرکاری زبان‘‘۔ یو.جی.سی. ریسرچ پراجیک�ئخ ئ خ ز ئخ ز 

ہفتہ، 13 اپریل، 2013

مولانا آزاد ۔ ایک عبقری ادبی شخصیت


مولانا آزاد ۔ ایک عبقری ادبی شخصیت


مولانا ابوالکلام آزاد ‘ ایک عظیم عبقری ‘نابغہ ‘عہد ساز اور عہد آفرین شخصیت کا نام ہے ، جو ایک تاریخ بھی ہے ، تاریخ کا ایک باب بھی ہے ، تاریخ ساز بھی ہے۔
ہندوستان کے تمام مسلمان ‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے مرہونِ منّت، ممنونِ کرم اور احسان مند ہیں۔ جو قوم اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہے ، تاریخ بھی اس قوم 
کو فراموش کردیتی ہے ۔ 
مولانا آزاد ‘ ایک ایسی جامع شخصیت کانام ہے جسے قسّامِ ازل نے متنوع کمالات کا جامع بنایا تھا ۔ عالم ‘ مفسّر، محدث‘ فقیہہ ‘ مؤرخ ‘ فلسفی‘ متکلم ‘ مفکّر‘ ادیب ‘ صحافی ‘ انشا پرداز ‘ نقّاد ‘ دانشور ‘ سیاست دان ‘ ماہرِ تعلیم ۔۔۔ الغرض مولاناابوالکلام آزاد کی شخصیت فطرت کا ایک ایسا حسین گلدستہ تھی‘ جسے قدرت نے موزون و متناسب گلہائے رنگارنگ سے سجایا تھا ۔ 
مولانا آزاد ‘ دنیائے ادب میں بطورِ بے نظیر صاحبِ اسلوب نثر نگار ‘ بے بدل قلمکار‘ 
بے باک صحافی ‘بے مثل خطیب‘ دلچسپ مکتوب نگار‘ تذکرہ نگاراور دانشور نقّاد کی حیثیت سے معروف ہیں ۔ 
مولانا ابوالکلام آزاد کو قدرت نے عبقریت سے نوازا تھا ۔ آپ کو فہم و فراست ‘
حکمت و تدبّر ‘ ذہانت و ذکاوت ‘ بذلہ سنجی و معاملہ فہمی ‘ نکتہ شناسی و نکتہ آفرینی کا حظِ وافر بارگاہِ ایزدی سے ودیعت ہواتھا ۔ جس کی وجہ سے آپ کی شخصیت ’’نابغۂ عصر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
مولانا آزاد کی تحریروں میں بھی یہی وصف ملتا ہے کہ انھوں نے اپنی راہ الگ نکالی ہے ۔ تفرد و امتیاز ‘ آپ کی ادبی شخصیت کا اہم وصف ہے۔ آپ نے تحریر و تقریر میں اپنی راہ الگ نکالی ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ایک غیور و خود دار ‘ حسّاس و باوقارشخصیت و کردار کے حامل تھے۔ایک جگہ’ تذکرہ‘ میں اپنی افتادِ طبع بلکہ اسی ذاتی وصف کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’۔۔۔۔۔۔جہاں کہیں رہے اور جس رنگ میں رہے‘ کبھی کسی دوسرے کے نقشِ قدم کی تلاش نہ ہوئی۔ اپنی راہ خود ہی نکالی اور دوسروں کے لئے اپنا نقشِ قدم راہنما چھوڑا۔ ‘‘ 
مولانا آزاد نے اردو میں ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ جاری کئے ۔ ان اخبارات میں آپ نے اپنے قومی و ملّی افکار کو پیش کیا، ملّتِ اسلامیہ کے کردار کو واضح کیا ، اردو صحافت کو وقار عطا کیا ،
بلکہ صحافت کو معیار اور پایۂ استناد و اعتبار عطا کیا۔ 
آپ نے اپنی تصنیف ’تذکرہ‘ کے ذریعہ ہندوستان کی ملّی تاریخ کے شاندار ابواب کو محفوظ کردیا ۔ حق و صداقت اور دعوت و عزیمت کی داستانیں اپنے پُر جوش اسلوب میں اس طرح تحریر کیں کہ تاریخی حکایات اور واقعات متحرک نظر آنے لگیں۔ ان تحریروں میں مولاناآزاد ‘نرے مؤرخ نظر نہیں آتے بلکہ دعوتِ انقلاب اور پیغامِ حرکت و عمل دینے والے ایسے مفکّر ‘ مبلّغ اور دانشور نظر آتے ہیں جو ناقۂ حجاز کے حدی خواں ، جادہ پیما ہونے والے قافلہ کے لئے بانگِ درا لگانے والا اور راہِ حق پر گامزن ہونے والوں کے لئے ایک رہنمائے حقیقت ‘ ہادئ برحق اور رہبرِ کامل ہو۔ 
مولانا آزاد نے’ تذکرہ ‘ میں حق و صداقت ، امانت و دیانت ، عجز و تواضع اور حق پسندی و حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے ۔ اسلامی مزاج کی وضاحت کرتے ہوئے حسب ونسب اور اپنی خاندانی عظمتوں پر فخر ومباہات نہیں کیا ہے بلکہ تحدیثِ نعمت اور اظہارِ حقیقت سے کام لیا ہے ۔ 
مولانا آزاد نے اپنے خطوط کے مجموعے ’غبارِ خاطر‘ میں مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ قلعۂ احمد نگر کی قید و بند اور اسارت و نظر بندی کے دور میں لکھے ہوئے خطوط ادبِ عالیہ میں ایک گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ 
اردو ادب میں کوئی کتاب ’غبارِ خاطر ‘ کا جواب نہیں پیش کرسکتی ۔ آپ نے اپنے زورِ قلم سے انشا پردازی کے بے مثل جواہر پاروں کو ’غبارِ خاطر‘ کی زینت بنایا ہے ۔ ’غبارِ خاطر‘ مولانا آزاد کا ایک ادبی شاہکار ہے ۔ قلعۂ احمد نگر کے واقعات و مشاہدات اور مولانا آزاد کے مختلف موضوعات پر پیش کردہ افکار و خیالات ‘ اپنی انفرادیت ‘ اسلوب کی دلکشی اور طرزِ نگارش کی جاذبیت کے باعث ’’غبارِ خاطر‘‘ ناقدانِ ادب کو ہمیشہ اپنی جانب متوجہ کرتی رہی ہے۔ 
قیدو بند کی صعوبتوں کے با وجود ‘ ایک جگہ ’غبارِ خاطر ‘ میں لکھتے ہیں : 
’’۔۔۔۔۔۔جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو ، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو ، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں ، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو، جہاں دوپہر ہر روز چمکے ، شفق ہر روز نکھرے ، پرند ہر صبح و شام چہکیں ، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و عشرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے ۔ ‘‘
’ غبار خاطر‘ میں مرصع کاری‘ رنگینی اور آراستگی کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں ۔ لفظی رعایات و مناسبات ، جملوں کی متوازن ترکیب و ترتیب کے بدلے ہوئے پیرائے ، نت نئے تلازمات اور نادر ترکیبات ، ’ غبار خاطر‘ کی دلآویزی اور دلکشی میں اور بھی اضافہ کرتے ہیں ۔ قاری ‘ مولانا آزاد کی تحریروں کے طلسم میں قید ہوکر رہ جاتا ہے ۔ 
غبارِ خاطر میں مولانا آزاد نے جو مکتوبات پیش کئے ہیں ،ان میں معنی کے بجائے لفظ اہم ہے اور بیان کے بجائے طرز بیان ، ان میں مواد کی وہ اہمیت نہیں جو اظہا ر کی ہے ، مولانا آزاد نے اظہاری اسلوب کے ذریعہ غبار خاطرکی نثر میں وہی داخلی تاثیر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو شاعری میں ملتا ہے، غبار خاطر کے بعض نثر پارے قاری کو ایک مخصوص جمالیاتی تجربہ کا احساس دلاتے ہیں ۔ حکایت زاغ و بلبل کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو : 
’’ زمستان کی برف باری اور پت جھڑ کے بعد جب موسم کا رخ پلٹنے لگتا ہے اور بہار اپنی ساری رعنائیوں اور جلوہ فروشیوں کے ساتھ باغ و صحرا پر چھاجاتی ہے تو اس وقت برف کی بے رحمیوں سے ٹھٹھری ہوئی دنیا یکایک محسوس کرنے لگتی ہے کہ اب موت کی افسردگیوں کی جگہ زندگی کی سرگرمیوں کی ایک نئی دنیا نمودار ہوگئی ، انسان اپنے جسم کے اندر دیکھتا ہے تو زندگی کا تازہ خون ایک ایک رگ کے اندر ابلتا دکھائی دیتا ہے ، اپنے سے باہر دیکھتا ہے تو فضا کا ایک ایک ذرّہ عیش و نشاط ہستی کی سرمستیوں میں رقص کرتا نظرآتا ہے ۔ آسمان و زمین کی ہر چیز جو کل تک محرومیوں کی سواری اور افسردگیوں کی جان کاہی تھی، آج آنکھ کھولئے تو حسن کی عشوہ طرازی ہے ، کان لگائیے تو نغمہ کی جاں نوازی ہے، سونگھئے تو سرتا سر بو کی عطر بیزی ہے۔ ‘‘
مولاناآزاد کے فنِ تقریر کے ملکۂ خدا داد اور زورِ خطابت کا زندہ ثبوت ’خطباتِ آزاد‘ ہے ۔ آپ نے جس طرح مختلف مواقع پرخطبات میں اپنے افکارو نظریات پیش کئے ، ان کے مطالعہ سے تقریر میں تحریر کے کمال کا اندازہ ہوتا ہے ۔آپ نے فصاحت و بلاغت کے دریا اپنی تحریروں میں بہائے ہیں ۔ بلاشبہ خطبات میں کہیں کہیں طنز و تعریض کے تیر و نشتر بھی ملتے ہیں ، لیکن بہ ایں ہمہ آپ کی زبان و بیان ، طرزِ اظہار اور اندازِ بیان ‘ بالخصوص آپ کی قرآنی تعبیرات ‘ تلمیحات و استعارات‘ اشارات و کنایات اور طرزِ تخاطب کے مختلف پیرایے آپ کی عبقری شخصیت ‘ ذہانت و ذکاوت ‘ فراست و فطانت ‘ کے مختلف پہلوؤں کو طشت ازبام کرتے ہیں ۔
یہاں‘مولانا آزاد کے بارے میں نقادانِ ادب کے چند خیالات پیش ہیں، جن سے مولاناآزاد کی عظیم عبقری شخصیت کے مختلف زاویوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے، یا پھر اردو کے ستم پیشہ نقادوں کی کم ظرفی و کوتاہ اندیشی کا ثبوت ملتا ہے۔
مولانا سید صباح الدین عبد الرحمن نے مولانا آزاد کے اسلوبِ بیان کو اردو کے عناصرِ خمسہ ( سرسید ، شبلی ، حالی ، نذیر احمد محمد حسین آزادؔ ) کی تکمیل قراردیا ، فرماتے ہیں: 
’’ مولانا آزا د کے اسلوبِ بیان سے وہ کمی پوری ہوگئی ‘ جو اردو کے عناصرِ خمسہ کے اسلوب میں رہ گئی تھی ۔ کیوں کہ مولانا نے مشکل الفاظ وفقروں کو ایسے حسنِ تناسب سے استعمال کیا ہے کہ دروبست کی خوبی و موزونی سے ان میں فصاحت پیدا ہوگئی ہے اوروہ صحیفۂ ادب بن گئے ہیں۔ جس طرح غالبؔ کی مشک پسندی سے اردو غزل دقیق و عمیق خیالات کی متحمل ہوئی ، اسی طرح مولانا کے بلند آہنگ الفاظ اور ترکیبوں کے ذریعہ وجود میں آنے والی
مؤثر ودل آویز تحریر کے نمونوں نے یہ ثابت کردیا کہ دقیق و خشک مضامین میں بھی کیفیت و حلاوت اوردل ربایانہ شان پیدا کی جا سکتی ہے ‘ اور یہ مولانا کی سحر طرازی اور قدرتِ بیان کا نتیجہ ہے ۔‘‘
مولانا عبد الماجد دریا آبادی ’ الہلال ‘ کے اسلوب پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں: 
’’خدا جانے کتنے نئے اور بھاری بھرکم لغات اور نئی تیرکیبیں‘ نئی تشبیہات ،نئے استعارے اورنئے اسلوبِ بیان ہر ہفتہ اس ادبی اور علمی ٹکسال سے ڈھل ڈھل کر باہر نکلنے لگے اور جاذبیت کا یہ عالم تھا کہ نکلتے ہی سکّہ رائج الوقت بن گئے ، حالیؔ و شبلیؔ کی سلاست و سادگی سرپیٹتی رہی، اکبرؔ الٰہ آبادی اور عبدالحق بابائے اردو سب ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے ۔ ‘‘ 
اور پروفیسر رشید احمد صدیقی مولانا کے اسلوب بیان کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں : 
’’ مولانا کا اسلوبِ تحریر وہ ان کی شخصیت تھی اور ان کی شخصیت ان کا اسلوب دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ، صاحبِ طرز کی ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ مولانا کے لکھنے کاانداز، لب و لہجہ اور مزاج قرآنِ پاک سے لیا ہے جو ان کے مزاج کے مطابق تھا ، وہی اندازِ بیان اور زورِ کلام جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں پر رعشۂ سیماب طاری کردیتا ہے ۔‘‘
مولانا کی نثر کو دیکھ کر سید سجاد حیدر یلدرم کہہ پڑے :
’’ میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن‘ عربی میں نازل نہ ہوتا تو مولانا ابوالکلام کی نثر منتخب ہوتی یا اقبال ؔ کی نظم۔‘‘
حسرت ؔ موہانی اپنی شاعری کو مولانا کی نثر کے سامنے بے حقیقت خیال فرماتے ہیں :
جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر 
نظمِ حسرتؔ میں بھی مزہ نہ رہا
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ شیخ ناسخؔ کے بعد اردو میں الفاظ ڈھالنے کا کمال صرف ابوالکلام کے پاس تھا ۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ ‘ ’ غبارِ خاطر‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اس میں ابوالکلام کا قلم بیمار اور ضعیف معلوم ہوتا ہے ، یہ جواں ابوالکلام کی تصنیف نہیں ، کہن سال ابوالکلام کی تصنیف ہے ۔‘‘
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے : 
’’ فقروں میں مسلح ،اور جوش ترتیب فوج کاسا جلال اور شکوہ ہے ، الفاظ میں نقارہ و دھل کا شور وہنگامہ ، جملوں میں آتش خانوں کی سی گرمی ہے ، جس نے مصلحتوں کی برف کو پگھلادیا ۔‘‘
قاضی عبد الودود نے مولانا آزاد کی تحریر کو ZERO قرار دے کر اپنے متعصب ذہن کا ثبوت فراہم کردیا ۔
( رقصِ شرر ۔ پروفیسر ملک زادہ منظور ۔ ملاقات قاضی عبدالودود ) 
اردو کے بیشتر کم نظر نقاد مولانا آزاد کے اسلوب کے شاکی رہتے ہیں ، کہ معرّب مفرّس اسلوبِ تحریر سے مولانا آزاد نے کون سا تیر مارا۔ ؟ 
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے 
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے 

ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری عمری۔ ایک تاثر


ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری عمری۔ ایک تاثر

ظہیردانش عمری 



چند سال پہلے کی بات ہے جب میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کا باقاعدہ طالب علم ہواکرتا تھا۔غالباًساتویں یاآٹھویں جماعت میں جب میں زیرتعلیم تھا تب وصی اللہ بختیاری سے ملاقات ہوئی تھی ۔اس کے بعد یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی جب بھی موصو ف جامعہ تشریف لاتے مجھ سے ضرورملاقات کرتے اپنی علمی وادبی معلومات سے فائد ہ پہونچاتے ۔
طالب علمی کے دورمیں آپ تنویر کے نائب مدیر رہ چکے ہیں ۔اپنے زمانے میں آ پ نے تنویرکا’’علامہ اقبالؔ نمبر ‘‘شائع کیاتھا جونہایت ضخیم اورمعیاری تھا۔اس میں ادب کی بڑی بڑی شخصیات کے پیغامات بھی شائع کئے گئے تھے۔جب میں نے اس کا مطالعہ کیاتویہ دیکھ کر حیران رہ گیاکہ موصوف نے اس کے لئے تقریباً چھے(۶) ضخیم مضامین لکھے ہیں جو علامہ اقبالؔ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں ۔
آپ جس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اس کی شہرت میں نے بہت سنی ہے ۔آپ کے دادا حضرت مولاناسید شاہ صبغۃ اللہ بختیاری‘ جامعہ دارالسلام، عمرآباد میں استاذِ تفسیرہواکرتے تھے۔رائچوٹی میں آپ نے عوام الناس کی اصلاح و تربیت کے لئے ایک خانقاہ بھی قائم فرمائی تھی ۔ اس دورمیں رائچوٹی میں دین کا نام تک لینے والاکوئی نہ تھا ۔بدعات و خرافات میں عوام ڈوبے ہوئے تھے ۔میں نے حضرت موصوف کو نہیں دیکھا، لیکن آپ کے اوصاف حمیدہ کے بارے میں اپنے اساتذہ سے بہت کچھ سناہے ۔بالخصوص میرے مربی ورہنما مولانا حبیب الرحمن اعظمی عمری نے متعدد مرتبہ آپ کا تذکرہ فرمایاہے۔رائچوٹی میں آج بھی آپ کے نام سے ایک چوک بختیاری چوک قائم ہے ۔اردومیں لکھی ہوئی ایک چھوٹی سی تختی کا مشاہدہ ہماری بات کے ثبوت کے لئے کیاجاسکتا ہے۔
ڈاکٹرصاحب موصوف میں اپنے داداصاحب کی بہت سی خوبیاں موجودہیں۔گفتگوکرنے کاجوانداز اللہ تعالی نے آپ کو ودیعت فرمایاہے اس کی مثال نہیں۔جوشخص ایک مرتبہ آپ سے گفتگوکرلیتاہے وہ آپ کااسیرہوجاتاہے ۔آپ کی زبان سے میں نے کبھی بھی ناشائستہ اورگندے الفاظ نہیں سنے حالانکہ میں نے کئی بارآپ کی معیت میں سفرکیا۔کئی گھنٹے آ پ کی معیت میں گزارے۔ آپ کا مخاطب (خواہ وہ کسی بھی سطح کا ہو)کی رائے کا احترام کرتے ہیں اوراپنی رائے بھی پیش کرتے ہیں ۔اس تمام اوصاف حمید ہ کے ساتھ ساتھ آپ میں ایک برائی یہ ہے کہ آپ وعدہ پورانہیں کرتے ۔
اس بات سے آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ کسی بھی شخص کادوست اس کی خوبیوں اورخامیوں سے اچھی طرح واقف ہواکرتا ہے۔میں نے آپ کے جتنے بھی دوستوں سے ملاقات کی تقریباً سبھی کو آپ کی شان میں مدح سرائی کرتے ہوئے پایاہے۔بالخصوص جناب نقی اللہ خان نقیؔ گرمکنڈوی،جناب سہیل احمد،جناب ریاض الرحمن(مدن پلی)،جناب ستّار فیضی ؔ کڈپوی، جناب شکیل احمد شکیلؔ ، ڈاکٹر محمدنثاراحمد (شعبۂ اردو ،ایس.وی.یونیورسٹی)،ڈاکٹرسیداقبال خسروؔ قادری، 
(مدیر سہ ماہی ’دبستان، کڈپہ)ڈی.عارف اللہ خان‘ (پلمنیر)، محمد تقی اللہ خان تقیؔ ، محمد قدیر اللہ خان (کوآرڈی نیٹر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،اسٹڈی سنٹر، گرم کنڈہ)اورخاص طور پرپروفیسر
ڈاکٹر ایس .محمد یاسر (صدرِ شعبۂ اردو ، سی.عبدالحکیم کالج ، میل وشارم ) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ، جو آپ کے حلقۂ احباب میں شامل ہیں۔ 
ڈاکٹرصاحب جیساخلیق اورملنسارشخص میں نے نہیں دیکھا۔آپ اپنے اساتذہ کے سامنے ایسے تواضع و انکسار سے پیش آتے ہیں کہ تعجب ہوتا ہے۔خواہ وہ جامعہ کے اساتذہ ہوں کہ مدراس یونیورسٹی کے اساتذہ۔
آپ کی کڈپہ و اہل کڈپہ سے گہری و ابستگی ہے اسی لئے جب بھی کڈپہ میں کوئی سیمنارہوتا ہے، بالخصوص جناب الحاج یوسف صفی صاحب‘ جب بھی کوئی سیمنارمنعقدکرتے ہیں، تووصی اللہ بختیاری صاحب کوضرورمدعوکرتے ہیں۔کڈپہ کے لاجواب دوہانگارڈاکٹرساغرؔ جیدی کی دوہاگوئی پرآپ نے ایک کتاب ترتیب دی ، جو۲۰۰۶ء میں شائع ہوچکی ہے۔اس کے علاوہ کڈپہ کے شاعرسعیدنظرکی شخصیت اورشاعری پر ایک کتا ب ترتیب دی ہے جس کا نام ہے’’ نظرنظر کے چراغ‘‘اس میں کئی اہلِ علم واہلِ ادب کے مضامین سعید نظرکی شخصیت اورشاعری کا احاطہ کرتے ہیں۔آپ پہلے قلم کارہیں جنہوں نے دبستانِ کڈپہ کے موضوع پرایک اچھوٹا مقالہ قلم بندفرمایاہے۔
ڈاکٹرصاحب کی ایک بُری عادت یہ ہے کہ مضمون یامقالہ لکھنے میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں‘ جب تک کہ اسے تحریرکرنا ناگزیرنہ ہوجائے ۔کسی کے دباؤمیںآکرہی وہ کچھ تحریرکرتے ہیں ورنہ سائل کوعام طورپروعدۂ فرداپرٹالاجاتاہے۔آپ یارباش قسم کے انسان ہیں ۔آپ کے حلقۂ احباب میں ہرقسم کے لوگ شامل ہیں وہ جب کسی دوست سے ملاقات کرتے ہیں تو بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔چائے کی پیشکش کرتے ہیں اگردوست کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہواتو کئی دیگر اشیاء کی پیش کش بھی کی جاتی ہے۔
زیرِنظر کتاب’ مقالاتِ بختیاری‘ میری ایماء پرسردارساحلؔ نے مرتب کی ہے ۔اس میں جومقالے شامل ہیں وہ یاتومختلف مواقع پرسیمناروں میں پیش کئے گئے یارسائل و جرائد میں شائع ہوئے ۔امید کی جاتی ہے کہ اہلِ ادب اس کتاب کا استقبال کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی موصوف کو دنیاو آخرت کی کامیابیوں سے سرفراز فرمائے ۔آمین۔

my photos in seminars

vasi bakhtiary department of urdu university of madras
vasi in madras university seminar

vasi bakhtiary department of urdu university of madras
Add caption

vasi bakhtiary department of urdu university of madras

vasi bakhtiary department of urdu university of madras

vasi bakhtiary department of urdu university of madras

vasi bakhtiary department of urdu university of madras

vasi bakhtiary department of urdu university of madras
Add caption