صفحات

منگل، 23 اپریل، 2013

آندھراپردیش میں اردو زبان کاموقف


آندھراپردیش میں اردو زبان کاموقف
ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری 
شعبۂ اردو ، گورنمنٹ ڈگری کالج ، پلمنیر 

آندھراپردیش بھارت کا وہ پہلا صوبہ ہے ، جس کی تشکیل لسانی بنیاد پر 1953ء میں عمل میں آئی ۔ پوٹی سری راملو کے مرن برت کے نتیجہ میں مدراس پریسی ڈنسی سے ایک علاقہ کو الگ کرکے یکم اکتوبر 1953ء کو ریاستِ آندھرا پردیش کی بنیاد ڈالی گئی۔ جس کا صدر مقام کرنول طے پایا تھا۔ تاہم بعد میں اس علاقے کو سابقہ حیدرآباد اسٹیٹ کے تلگو زبان بولنے والوں کے علاقہ کے ساتھ ضم کرکے موجودہ ریاست یکم نومبر 1956ء کو بنائی گئی۔ ریاست کا صدر مقام حیدرآباد قرار پایا۔
اردوزبان کو قدیم ریاستِ حیدرآباد میں انیسویں صدی کے اواخر ہی سے سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس میں جن لوگوں کی کوششوں کا دخل ہے ، ان میں خصوصاً صدرالمہامِ عدالت بشیر الدولہ، صدرالمہام مکرم الدولہ، مولوی مشتاق حسین، حاکمِ وقت نواب میر محبوب علی خاں اور ان کے فرزند حاکمِ وقت نواب میر عثمان علی خاں‘ وغیرہ کی کوششوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔
آندھراپردیش کی تشکیل عمل میں آنے کے بعد ‘ اردو زبان کی حالت اگرچہ کے قانونی طور پر حاصل تھی ، لیکن عملی طور پر اردو کو رائج کرنے کے لئے ایک طویل مدت درکار تھی ۔ جس میں اہلِ اردو کی کوششوں کو بھی دخل تھا۔ جمہوریت میں چونکہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں‘ اور حکومت کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ۸۰ کی دہائی میں اور ۹۰ کی دہائی میں اردو زبان کے دستوری موقف کی عمل آوری کے لئے کوششیں تیز ہوگئیں ۔ 
قانون تو ۱۹۶۶ء ؁ میں منظور ہوگیا تھا، لیکن ۱۹۷۷ء ؁ میں نافذ کیا گیا۔ لیکن ۸۰ کی دہائی تک بھی عمل میں نہیں آیا ۔اس کے لئے ۱۹۸۲ء ؁ میں اہلِ اردو کی ایک اڈہاک کمیٹی کا قیام عمل میں آیا، جس نے اردو زبان کے حق کے لئے احتجاجات کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا ۔ سب سے پہلے ۱۹۸۸ء ؁ ۔۱۹۸۷ء ؁ میں سکرٹیریٹ کے قریب ایک اجتماعی دھرنا کیا گیا ۔پھر حیدرآباد میں ، چارمینار کے دامن میں ‘ ایک زنجیری بھوک ہڑتا ل شروع کی گئی ، جو گیارہ دنوں تک چلی ۔ جب احتجاجات سے جب کام نہ نکلا تو ، ایک تاریخی ہڑتال کی شروعات کی گئی ۔جو آٹھ مہینوں تک چلتی رہی۔ یہ اردو کی اپنی نوعیت کی سب سے لمبی ہڑتال تھی‘ جس کی مثال نہ صرف آندھراپردیش بلکہ سارے ہندوستان میں نہیں ملے گی۔ آٹھ مہینوں کے بعد ‘ پولس کمیشنر ٹی .ایس .راؤ نے ہڑتال ختم کرنے کی پُرزور اپیل کی ۔ تاہم ہڑتال کو ختم کرنے سے صاف انکار کردیا گیا، اور چیف منسٹر سے ملاقات کرنے او رراست بات چیت کرنے کے بعد چیف منسٹر نے جی .او .ایم.ایس. نمبر 281جاری کیا گیا۔ اس کے بعد آندھراپردیش میں اردو زبان وتعلیم کے راستے کھلتے گئے اور اردو دانوں کے دلوں سے یہ خوف دھیرے دھیرے ختم ہوتا گیا کہ حکومت ‘ اردو کی خیر خواہ نہیں ہے۔ 
اِس ہڑتال کو کامیاب بنانے میں اُس اڈہاک کمیٹی کا بہت بڑا ہاتھ تھاجو بعدمیں ایک باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار کرگئی، تنظیم جد وجہد اردو ۔ اس تنظیم کے عہدہ داروں اور کارکنوں میں ‘ جناب فصیح الدین مرحوم کا نام سرِ فہرست ہے ، جو ایک طویل مدت تک اردو کی بے لوث خدمات انجام دیتے رہے ۔ 
اردو بحیثیت دوسری سرکاری زبان :
حیدرآباد کے نوابوں نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے کر اس کو جو عروج عطا کیا تھا، اس کا جادو ، آج بھی سارے تلنگانہ میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ 1956ء تک آندھراپردیش میں اردو سرکاری زبان رہی ۔ اس کے بعد یہ رتبہ سرکاری طورپر تلگو کو دے دیا گیا۔ حکومت میں 1977ء میں اردو کو ایک علاقائی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ آندھراپردیش لنگویج ایکٹ 1966ء کے تحت ، آندھراپردیش کے گورنر نے جی. او. ایم . ایس . نمبر 472، مؤرخہ 4جولائی 1977ء کو ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعہ ، اردو کو تلگو کے ساتھ ایک زائد زبان کے طور پر استعمال کرنے کا حکم جاری کیاتھا۔ اِس حکم نامہ کے تحت اردو کو بعض ملازمتوں کے لئے ، دوسری زبان کی حیثیت سے ضروری قراردیا گیا۔ علاوہ ازیں ‘ دفتری معاملات میں‘ اردومیں پیش کی گئی درخواستوں کو اردو ہی میں جواب دینے کو ضروری قرار دیا گیا۔ اور جہاں کہیں 15%اردو بولنے والی آبادی موجود ہو ، وہاں اہم قوانین کو اردو میں جاری کرنے کے احکامات جاری کئے ۔ اردو تعلیم کے لئے بھی بعض رعایتیں دی گئی تھیں۔ اس حکم نامہ میں ‘ آندھراپردیش کے جن علاقوں کے لئے اردو کو دفتر کی زبان کے لئے ضروری قرار دیا گیا تھا، ان اضلاع کے نام درجِ ذیل ہیں: 
۱۔اننت پور ۲۔ کڈپہ ۳۔ کرنول ۴۔ عادل آباد 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکم نامہ سے اردو کو بہت کچھ فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ مگر جیساکہ ہوتا آیا ہے ، کبھی کبھار سرکاری حکم ناموں پر عمل آوری خاطرخواہ نہیں ہوتی ، یہی حال اس حکم نامہ کا بھی ہوا۔ سابق چیف منسٹر این.ٹی.راماراؤ کے عہد تک یہی صورتِ حال رہی ۔ 
سابق چیف منسٹر جناب چندرا بابو نائیڈو نے اردو زبان کی ترقی کی طرف خاصی توجہ کی ۔ اس خصوص میں ‘ انہوں نے کئی ایک قابلِ تقلید اقدامات کئے ۔ ان اقدامات میں آندھراپردیش کے بعض اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر قبول کرنے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ چیف منسٹر موصوف نے ، آندھراپردیش افیشیل لنگویج ایکٹ 1966ء اور 1977کے نوٹی فیکیشن کی روشنی میں مؤرخہ 18ستمبر 1996ء کو درجِ ذیل اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبا ن کی حیثیت دی گئی :
۱۔اننت پور ۲۔ کڈپہ ۳۔ گنٹور ۴۔ حیدرآباد 
۵۔ کرنول ۶۔ میدک ۷۔ نظام آباد ۸۔ رنگاریڈی 
اس حکم نامہ کے بعد 29جون 2002ء کو ایک اور نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا۔ جس کے تحت مزیدپانچ اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی تھی۔ یہ اضلاع ہیں:
۱۔ عادل آباد ۲۔ چتور ۳۔ محبوب نگر ۴۔ نیلور ۵۔ ورنگل 
اس طرح کل ملا کر ‘ آندھراپردیش کے 13اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی ۔ 

آندھراپردیش میں اردو کا موجودہ مقام:
آندھراپردیش میں اہم زبانوں میں ایک زبان اردو ہے ۔ جب کہ صوبہ کی دفتری زبان تلگو ہے ۔ تو اردو کو ایک زائد دفتری زبان Additional Official Languageہے ۔اعدادوشمار کے مطابق تلگو کے بعددوسرے نمبرپر آنے والی زبان اردو ہے ۔ قدیم مردم شماری کے مطابق ‘آندھراپردیش میں اردو بولنے والی آبادی 55.6لاکھ افراد ہیں ۔ ریاستی حکومت نے ان علاقوں کی نشاندہی کی ہے‘ جہاں لسانی اقلیت کی آبادی 15%یا اِس سے زیادہ ہے۔اور اس نشاندہی میں اضلاع اور اضلاع کے تعلقہ جات کی فہرست بھی جاری کی گئی ہے۔ 
مقامِ افسوس ہے کہ سرکاری اعلانات اور احکامات کے باوجود ‘ باضابطہ اطلاق اور عملی کارروائی کا جہاں تک تعلق ہے ‘ کسی قسم کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ سابق وزیرِاعلیٰ وائی .ایس. راج شیکھر ریڈی کے زمانہ میں آندھراپردیش لینگویج کمیشن کے ذریعہ دوسری سرکاری زبان اردو والے اضلاع کا پہلا افیشیل ڈسٹرکٹس سمینار منعقد کیا گیا۔ لیکن کارروائی آگے نہ بڑھ سکی اور راہیں ہموار ہونے کے باوجود ترقی مسدود ہوکر رہ گئی۔ 

اردو بحیثیت دوسری سرکاری زبان۔موجودہ موقف :
آندھراپردیش کے 14اضلاع میں تلگو کے علاوہ اردو کو بھی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے ، تاکہ مندرجۂ ذیل دفتروں میں استعمال کیا جائے ۔ 
*ایک علاقائی زبان کی حیثیت سے سکرٹیریٹ ، منسٹیریل اور جوڈیشیل ملازمتوں کے ڈائرکٹ امتحانوں /رکروٹمنٹ میں اردو کا استعمال 
* گزیٹیڈ اور نان گزیٹیڈ ملازموں کے لئے ایک زبان کے امتحان کے لئے 
* جہاں ضروری ہے ، اردو میں دی گئی درخواستوں کے جوابات اردو ہی میں دیئے جائیں۔
* عدالتوں کی زبان کی حیثیت سے ، ریاست کے ہائی کورٹ ، دیوانی اور فوجداری عدالتوں میں استعمال کے لئے اور ضلعی عدالتوں میں ، درجِ ذیل اضلاع میں :
اننت پور، کڈپہ ، کرنول ، گنٹور ، عادل آباد ، حیدرآباد ، رنگا ریڈی ،
کریم نگر ،کھمم ، محبوب نگر ، میدک ، نلگنڈہ ، نظام آباد اور ورنگل ۔
پندرہ فیصد اردوبولنے والے ضلعوں میں ، ان تمام مقاصد کے لئے اردو کو استعمال کیا جائے : 
* ٹنڈر نوٹس جاری کرنے کے لئے اور چِٹ ٹنڈر نوٹس جاری کرنے کے لئے، تمام عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے شعبۂ R&B میں اردو زبان کو استعمال کیا جائے ۔ 
* سمکیات (فشریس ) کے دفتر میں ہراج اور جنرل آرڈرس کے لئے بھی اردو میں ایکشن نوٹس جاری کیا جائے۔ 
* سب انسپکٹر، سرکل انسپکٹر ، اور ایکسائز دفتروں میں ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے ۔ 
* محکمۂ جنگلات میں فارسٹ کے رینج آفیسرس ، منڈل کے سطح میں ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے۔ 
* گرام پنچایت ، منڈل پرجا پریشد اور ضلع پرجا پریشد میں بھی ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے ۔
* محکمۂ آب پاشی ( ایرریگیشن ) میں چِٹ ٹنڈرس ، ان تمام چھوٹے کاموں کے لئے ایکشن نوٹس اردو میں جاری کیا جائے ۔ 
* ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اور منڈل ریوینیو آفیسرس اور ولیج میں پبلک نوٹس برائے اعتراض بھی اردومیں جاری کیاجائے ۔
* تمام اہم قوانین ، اصول اور قواعد اور اعلانات اردو میں جاری کیا جائے ۔ 
ریاستی حکومت نے صوبے کے صدرمقام پر ایک ڈائر کٹوریٹ برائے ترجمہ قائم کیا جائے ، جس میں تمام اہم قوانین ، اصول اور قواعد واعلانات وغیرہ اردو میں ترجمہ کئے جائیں ۔
دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کے احکامات ہی میں یہ حکم بھی شامل تھا کہ ’’ریاستی حکومت ‘ صوبے کے صدرمقام پر ایک ڈائرکٹوریٹ برائے ترجمہ قائم کرے گی ، جس میں تمام اہم قوانین ، اصول اور قواعد واعلانات وغیرہ اردو میں ترجمہ کئے جائیں ۔‘‘
اِس حکم کے مطابق آندھراپردیش کے صدرمقام حیدرآباد میں ڈائرکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن قائم کیا گیا ہے، جس میں اردو کا ایک باقاعدہ شعبہ ہے۔ ڈائر کٹر کی ماتحتی میں چار ڈپٹی ڈائرکٹر ہوتے ہیں ۔ دو اردو کے لئے اور دو تلگو کے لئے ۔ 
فی الحال سرینواس راؤ ‘ اس محکمے کے ڈائرکٹر ہیں اور محترمہ سِمّی اصغر صاحبہ اردو کی ڈپٹی ڈائر کٹر ہیں۔ اردو کے لئے ایک اور ڈپٹی ڈائرکٹر جناب نہال احمد صاحب ہیں۔ آپ دونوں کی ماتحتی میں کئی جونیئر ٹرانسلیٹرس اور کئی سینیئر ٹرانسلیٹرس کام کرتے ہیں ۔ یہ شعبہ کافی فعّال ہے ،اس کے تحت اب تک کئی سرکاری احکامات اور آرڈرس کاترجمہ اردو میں کیا جاچکاہے ۔ ریاستِ آندھراپردیش کے کئی ایکٹس ، بِلس، آرڈیننس، ڈیمانڈس کابھی اردو میں ترجمہ کیا جاچکا ہے ۔ اس کے علاوہ شعبۂ ترجمہ میں جنرل لیٹرس، الیکشن ورک اور سالانہ رپورٹوں کا بھی ترجمہ کیا جاچکا ہے ۔ اردو میں پائے جانے والے وقف کے دستاویزوں کو اوقاف کے قانون کے مطابق اردو سے انگریزی اور تلگو میں بھی ترجمہ کیا جاچکاہے ۔ 
آندھراپردیش میں ‘ اردو ایک سب سے بڑی اقلیتی دفتری زبان ہے جو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ آندھراپردیش میں موجودہ اردو زبان کا جو موقف ہے ‘کسی قدر اطمنان بخش اور مستقبل کی تابناکی کا احساس دِلاتا ہے۔ موجودہ آندھراپردیش میں اردو زبان کے موقف اور قانونی صورتِ حال سے متعلق موجودہ اعداد وشمار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ اردو میں احساسِ ذمہ داری کے ساتھ جمہوری طریقے سے اپنے آئینی حقوق کے مطالبہ کی سمت پیش رفت کی ضرورت ہے۔ 
آندھراپردیش میں اردو ‘ اگرچہ کہ دوسری سرکاری /دفتری زبان قرار دی جاچکی ہے ، لیکن عملی طور پر اردو کا نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ صوبے کے کلکٹریٹ دفاتر میں اور ضلعی سطح کے سرکاری دفاتر میں‘(چند ایک استثناء کے ساتھ )صرف کہیں کہیں اردو کا سائن بورڈ نظر آجاتا ہے ۔ انتظامیہ ‘ علاقائی صرف زبان تلگو کو اہمیت دے رہی ہے ۔ 
اردو کو سرکاری زبان قرار دئے جانے کے بعد سرکاری اداروں میں کم از کم اردو کا نفاذعمل میں آنا چاہیئے ۔ اسی طرح اردو مترجمین کا تقرر بھی سرکاری دفتروں میں کیا جانا چاہیئے ، لیکن عملی طور پر ایسا کوئی سرکاری دفتر نہیں ہے ‘ جہاں اردو کے مترجم کا تقرر عمل میں آیا ہو ۔ حالانکہ دوسری سرکاری زبان قرار دئے جانے کے بعد اردو میں درخواستوں کو قبول کرنا چاہیئے تھا۔
جب عملی سطح پر دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دوسری سرکاری زبان سے متعلق ‘اِ ن تما م قوانین اور قواعد کا اطلاق صرف کاغذ پر ہو سکا ہے ۔ اہلِ اردو‘ اردو زبان کے عملی نفاذ کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ریاست بھر میں‘ اردو سے متعلق تمام کارروائی کو عملی طور پر شروع کرنے کے لئے بار ہا کلکٹروں سے نمائندگی بھی کی گئی ‘ لیکن اِس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا۔ بلکہ چند اضلاع کے کلکٹر آفسوں میں سوائے تلگو کے کسی بھی زبان میں درخواستیں قبول نہیں کی جارہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے منظور کی گئی تمام قراردادوں پر عمل آو149ری کے لئے کلکٹریٹ کے تمام محکمے جوابدہ ہیں ، لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو پارہاہے ۔ 
حکومتِ آندھراپردیش کی جانب سے ایک افیشیل لینگویج کمیشن ‘ قائم کیا گیا ہے ۔ جس میں اردو کا ایک باقاعدہ شعبہ بھی ہے ۔ لیکن اس شعبے میں کام کرنے والے تمام افراد ‘ حکومت ہی کی طرح اردو کے نفاذ کے سلسلے میں لاپرواہی سے کام لیتے ہیں ۔ اردو کے لئے جو رقم اور فنڈس مہیا کئے جاتے ہیں ، اُس کا صحیح استعمال نہ کئے جانے کی شکایت مختلف شعبوں کی جانب سے کی جاتی رہی ہے ۔ 
اگر اہلِ اردو ‘ اوراردو تنظیمیں ‘ خاص طور پر انجمن ترقی اردو، اردو داں آبادی کی نمائدگی کرتے ہوئے انہیں اُن کا دستوری حق دلائیں اور اردو والوں میں اپنی زبان سے محبت کا دَم بھرنے کا عملی ثبوت پیش کرنے پر اصرار کریں توآندھراپردیش میں اردو بہ آسانی ایک دوسری سرکاری زبان کی حیثیت ‘ صرف آئینی اور کاغذی نہیں ‘ بلکہ عملی طور پر ایک کارآمد زبان کی حیثیت حاصل کرجائے گی ۔ 
استفادہ:
(۱) پروفیسر مصطفےٰ کمال۔ ’’ریاستِ حیدرآباد میں اردوزبان کی ترویج وترقی‘‘
(۲) ڈاکٹر اے.آر.فتیحی، علی گڈھ ۔ آن لائن مضمون ’’ آندھراپردیش میں اردو ‘‘‘
اس مضمون کو’ لینگویج اِن اِنڈیا‘ کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتاہے ۔
(۳) ڈاکٹر اے. محی الدین باشاہ، صدرِ شعبۂ اردو ، گورنمنٹ ڈگری کالج، پلمنیر
’’ضلع چتور میں اردو بحیثیت دوسری سرکاری زبان‘‘۔ یو.جی.سی. ریسرچ پراجیک�ئخ ئ خ ز ئخ ز 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں