ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری
شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج برائے ذکور (خودمختار)، کڈپہ۔
دبستانِ شبلی کے گلِ سرسبد
شاہ معین الدین احمد ندوی کی ادبی خدمات
مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی‘ (ولادت: 1903ء - وفات: دسمبر 1974ء) ممتاز ندوی علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1924ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے سندِ فراغت حاصل کی۔انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کی خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لئے علامہ سید سلیمان ندوی کی ساتھ، بحیثیت رفیق دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔علامہ شبلی نعمانی کی علمی وادبی ورثہ کے تحفظ،تسلسل اور علم و ادب کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ انہوں نے تاحیات ”دارالمصنفین“ کی رفاقت نبھائی۔علامہ شبلی نعمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی کے بعد دارالمصنفین کے وقار و اعتبار کو قائم رکھا اور اس علم و ادب کے سلسلۃ الذہب میں شامل ہو گئے جس میں علم و ادب، تحقیق و تنقیداور سیرت و تاریخ کی ایک کہکشاں آباد ہے۔
دارالمصنفین میں ان کی خدمات تقریباً نصف صدی پر محیط ایک طویل مدت سے عبارت ہیں جو صرف ایک ادارہ میں علمی و ادبی خدمات کے لیے مختص کردی گئیں۔مولانا عبد السلام قدوائی ندوی نے ان کے پورے پچاس سالہ بے لوث اور مخلصانہ خدمات کے بارے میں لکھتے ہیں: ”وہ پورے پچاس سال استاذ اور مربی کے آستانہ پر جمے رہے۔ نہ مشکلات اور پریشانیاں کبھی ان کو ہراساں کر سکیں اور نہ راحت و آرام اور نہ عزت و وقار کے دلکش مواقع نے ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا کی۔ وہ حسرت اور تنگ دستی اور مشکلات و مصائب سے بے خوف اور ترغیب و تحریص سے بے نیاز ہو کر استاذ کی ہدایت کی تعمیل میں لگے رہے اور شبلی و سلیمان کے لگائے ہوئے پودے کو اپنے خون جگر سے سینچتے رہے تاآنکہ راہِ وفا کے مسافر کو موت نے ابد کی خوابگاہ میں پہنچا دیا۔“ (رسالہ تعمیر حیات، لکھنؤ شاہ معین الدین احمد ندوی نمبر، مارچ-اپریل، 1975
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں