صفحات

بدھ، 24 اپریل، 2013

تمہیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ


تمہیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ 


میر اکبر حسین اکبرؔ الٰہ آبادی کا درجِ بالا مصرعہ ، جسے میں نے مضمون کا عنوان اور سرنامہ بنایا ہے ، بلاشبہ اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کا عنوان بھی ہے۔ جس عہد سے آپ کا تعلق تھا ، وہ انقلاباتِ زمانہ ، تہذیبی روایات کی شکست و ریخت ، قدیم و جدید کے تصادم و ٹکراؤ اور تمدنی و معاشرتی اقدار کی تبدیلی کا زمانہ تھا۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنے پُر آشوب عہد کے متغیر حالات سے شدید تاثر قبول کیا تھا ۔ تہذیبی تصادم اور معاشرتی اقدار کی تبدیلی پر انہیں قلبی صدموں سے دوچار ہونا پڑا ۔ مگرانھوں نے ایک کامیاب فنکار اور عظیم شاعر کی حیثیت سے اپنے عہد کی تہذیبی کشمکش کو طنز و مزاح اور ظرافت و
لطافت کے حسین و مہین پردوں میں بیان کردیا ہے۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی بلا شبہ طنز و مزاح کے عظیم شاعر تھے، اردو میں ان کا ہم پلہ کوئی شاعر نہیں ہے۔ انہوں نے تلخ سے تلخ تر حقائق کو شیریں سے شیریں تر لب و لہجہ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ پہلے قاری کے لبوں پر تبسم رقص کرنے لگتا ہے اور تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھیں نمناک ہوجاتی ہیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی کو اپنے عہد کے تہذیبی و تمدنی تغیر کا قلق اور رنج تھا ۔ انہوں نے قدیم و جدید اور مشرقی و مغربی دونوں تہذیبوں کا بغور مشاہدہ کیا تھا ۔ مشرقی تہذیب اور معاشرتی اقدار کے زوال اور مغربی تہذیب کے عروج و تسلط کو ان کی دور اندیش نظروں نے صاف دیکھ لیا تھا۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری صرف طنزو مزاح ہی نہیں بلکہ ایک عظیم بامقصد اصلاحی شاعری بھی ہے ۔ اُن کا مطالبہ نوجوان نسل سے یہ تھا اور آج بھی ہے کہ ہر طرح کی ترقی کی جائے مگر اپنی مشرقی تہذیب کا سودا نہ کیا جائے۔ ہر طرح کی مادی و دنیوی سربلندی حاصل کی جائے اور اپنے مذہب سے روگردانی نہ کی جائے ۔ مغربی ایجادات ، مغربی علوم وفنون اور جدید نظام کی تمام سہولتوں اور آسائشوں سے استفادہ کیا جائے مگر اپنے اخلاق و کردار کی حفاظت کی جائے ۔ مغربی اخلاقی نظام سے کنارہ کشی اختیارکی جائے ۔ گویا قدیمِ صالح اور جدیدِ نافع کا اشتراک ہو۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی کی مجموعی شاعری میں انقلابِ زمانہ اور تہذیبی کشمکش کا پرتو نظر آتاہے۔ ایک طرف زوال پذیر مشرقی تہذیب جو بلند اخلاقی اقدار اور مذہبی بنیادوں پر استوار تھا تو دوسری طرف مغربی تہذیب جو کہ اخلاقی زوال اور مذہب بیزاری پر مبنی تھی ۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنے عہد کی نوجوان نسل کو جدید مغربی علوم و فنون کے ساتھ مغربی اخلاق اور مغربی طرزِ معاشرت بھی اختیار کرتے دیکھا تھا ۔ مستقبل کے آئینہ میں مغربی تہذیب کے تئیں غلامانہ مزاج اور مرعوب ذہنیت کو دیکھا تھا ، نتیجتاً پیدا ہونے والی تمام برائیاں ان کے سامنے آئینہ تھیں ، اور اکبرؔ الٰہ آبادی کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے حقائق کا کا تلخاب پینے کے بعد بھی اپنے لہجے میں تلخی نہیں آنے دی ، طنز و ظرافت کے پیرہن میں حقائق کو ملبوس کردیا۔
اکبرالٰہ آبادی کو علامہ سید سلیمان ندوی نے ’لسان العصر‘ کا خطاب دیا ۔’’ لسان العصر‘‘ کے مفہوم میں اپنے عہد کی زبان ، اپنے دور کی ترجمانی ، اپنے وقت کے مسائل کا ادراک و عرفان اور اظہار و علاج سب کچھ شامل ہے ۔ 
علامہ سید سلیمان ندوی نے اکبرؔ الٰہ آبادی پر اپنے مضمون میں جو’معارف‘ اگست ۱۹۱۶ ؁ء میں شائع ہوا لکھا ہے : 
’’میر صاحب کا احسان یہ ہے کہ انہوں نے سعدیؔ ، ابنِ یمین ؔ اور خیام ؔ کے مغزِسخن کو امانتؔ کے الفاظ میں اور سید انشاءؔ کی بولی میں اس طرح ادا کیا کہ وہ نہ صرف تفریحِ طبع اور واہ واہ کا سامان رہا ، بلکہ اس کی تہہ میں پند و موعظت ،اخلاقی تعلیم ، سیاسی نکتے ، فلسفیانہ اسرار‘ مذہبی مسائل ، اجتماعی مباحث بھی نظر آنے لگے۔۔۔۔‘‘
اکبرؔ الٰہ آبادی نے جہاں مغربی تہذیب پر چوٹ کی ہے وہیں مغرب زدگی اور فرنگی تہذیب سے مرعوبیت کی مخالفت بھی کی ہے ۔ انھوں نے بہت سے سماجی مسائل کو موضوع بنایا ہے اور تقلیدِ مغرب کے نقصانات کو آشکار کیا ہے ۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنی شاعری کی زبان میں جس بات کا التزام کیا وہ یہ ہے کہ انھوں نے انگریزی کے الفاظ بھی شامل کئے ، بلکہ اس سلیقہ سے شامل کئے کہ اس سے مزاح کا لطف دوبالا ہوگیا ۔ انہوں نے رعایتِ لفظی کا التزام بھی اپنی شاعری میں کیا۔ تجنیس، تضاد، وغیرہ صنائع اور بدائع کا استعمال ان کے کلام میں لطف دے جاتا ہے ۔ اس خصوص میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں : 
’’رعایتِ لفظی اور ضلع جگت ، متاخرین بلکہ متوسطینِ شعرائے لکھنؤ تک کا مذاقِ خاص رہا ہے ۔ اکثر صرف اسی اساس پر ان کی شاعری کی ساری بنیاد قائم ہوتی ہے ۔ان لوگوں نے بڑی غلطی یہ کی کہ اس کا کوئی خاص محلِ استعمال متعین نہیں کیا ، بلکہ ہر قسم کے کلام کو اس زیور سے آراستہ کرنا چاہا، یہی وجہ ہے کہ وہ اونچے طبقوں میں مقبول نہیں ہوا، لیکن میر صاحب نے رعایتِ لفظی کو صرف ظریفانہ کلام کے ساتھ مخصوص کردیا ، جو ا س کے لئے خاص طور پر موزوں تھی، میر صاحب کے ظریفانہ کلام کے رنگ کو جابجا اس عنصر کی آمیزش نے نہایت شوخ کردیا
ہے‘ ۔۔۔۔‘‘
اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی شاعری محض طنز و مزاح نہیں ، بلکہ عظیم اور بامقصد شاعری ہے ۔ انہوں نے مغربیت کے طوفان اور مشرقی اقدار کے زوال پر صدائے احتجاج بلند کی ہے ، جو بلند بانگ تو نہیں ہے لیکن طنز و مزاح کی تہہ میں زیریں لہروں میں موجزن ہے۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں جہاں موضوعات کا تنوع پیدا کیا ہے وہیں ان کا مرکزی موضوع ایک ہے ۔ انھوں نے سماجی،سیاسی ، تہذیبی اور معاشرتی و ثقافتی مسائل پر اظہارِ خیال بھی کیا ہے ۔ 
جدید تعلیمی نظام ، تعلیمِ نسواں ، مغربی طرزِ معاشرت ، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ،
بدلتا ہو ا سماجی نظام ، مزعومہ ترقی اور اخلاقی تنزل اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کے عام موضوعات ہیں۔ 
اکبرؔ الٰہ آبادی کو اس بات کا شدید غم تھا کہ انھوں نے جس تہذیب اور طرزِ معاشرت میں آنکھیں کھولیں ، وہی رفتہ رفتہ دم توڑ رہی تھی ، تہذیبِ نو کی جلوہ گری سے اکبرؔ الٰہ آبادی کو خوف نہیں تھا بلکہ انھیں اس تہذیب کے ساتھ آنے والی بداخلاقیوں سے خطرہ تھا ۔ منافقت، بداخلاقی، مادی تہذیب اور اندھی مغربی تقلید کے بطن سے پیدا ہونے والی بیشمار برائیوں پر ان کی نگاہ تھی۔ کہتے ہیں ؂
یہ موجودہ طریقے راہ�ئ ملکِ عدم ہوں گے 
نئی تہذیب ہوگئی اور نئے سامان بہم ہوں گے 
نئے عنوان سے زینت دکھائیں گے حسیں اپنی 
نہ ایسا پیچ لفظوں میں نہ گیسو میں یہ خم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی یہ پردے کی پابندی 
نہ گھونگھٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے
بد ل جائے گا اندازِ طبائع دورِ گردوں سے 
نئی صورت کی خوشیاں اور نئے سامانِ غم ہوں گے
تہذیبی تبدیلیوں سے مذہب پر بھی آنچ آئے گی ، مذہب پر بھی اس جدیدیت کی زد پڑے گی ؂
عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے 
بہت ہوں گے مغنّی نغمۂ تقلیدِ یورپ کے
مگربے جور ہوں گے اس لئے بے تال و سم ہوں گے
اکبرؔ کو معلوم تھا کہ اردو زبان پر بھی اس تہذیب کا اثر پڑے گا ، بلکہ انگریزی زبان کے غلبہ اور تسلط کی وجہ سے لوگ اردو سے نابلد رہ جائیں گے ، انگریزی زبان ہر جگہ غالب آجائے گی ؂
ہماری اصطلاحوں سے زباں نا آشنا ہو گی 
لغاتِ مغربی بازار کی بھاکا سے ضَم ہوں گے 
اکبرؔ کو یہ احساس بھی ہے کہ نئی تہذیب معیارِ شرافت بھی اپنے ساتھ لائے گی ۔ بلند اخلاقی، عظمت و شرافت کا معیار یکسر بدل کر رہ جائے گا۔ کہتے ہیں ؂
بدل جائے گا معیارِ شرافت چشمِ دنیا میں
زیادہ ہیں جو اپنے زعم میں وہ سب سے کم ہوں گے 
گذشتہ عظمتوں کے تذکرے بھی رہ نہ جائیں گے 
کتابوں ہی میں دفن افسان�ۂ جاہ و حشم ہوں گے 
پھر اس انقلابِ زمانہ سے مغموم و آزردہ اکبرؔ اپنے مقطع میں کہتے ہیں ؂
تمہیں اس انقلابِ دہر کا کیا غم ہے اے اکبرؔ 
بہت نزدیک ہے وہ دن کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے 
اپنے اس مقطع میں اکبرؔ الٰہ آبادی نے گویا اپنادل نکال کر رکھ دیا ہے ۔ اس مقطع سے ان کے قلبِ حزیں کی اداسی اور مجبوری عیاں ہے ۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کو شدید احساس تھا کہ وہ مغربیت کے جس سیلاب پر بندھ بنانا چاہتے ہیں ، اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں لیکن انھیں اس بات کا اطمینان ضرور تھا کہ انھوں نے اپنی حتیٰ المقدور مزاحمت کرکے احتجاج کا حق ادا کردیا۔ 
اِس طرح اکبرؔ الٰہ آبادی نے ایک عہد کی سماجی ،تہذیبی آویزش کو دستاویز کی شکل میں محفوظ کردیا ، نتیجتاً اکبرؔ الٰہ آبادی کانام اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیاہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں