صفحات

ہفتہ، 13 اپریل، 2013

مولانا آزاد ۔ ایک عبقری ادبی شخصیت


مولانا آزاد ۔ ایک عبقری ادبی شخصیت


مولانا ابوالکلام آزاد ‘ ایک عظیم عبقری ‘نابغہ ‘عہد ساز اور عہد آفرین شخصیت کا نام ہے ، جو ایک تاریخ بھی ہے ، تاریخ کا ایک باب بھی ہے ، تاریخ ساز بھی ہے۔
ہندوستان کے تمام مسلمان ‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے مرہونِ منّت، ممنونِ کرم اور احسان مند ہیں۔ جو قوم اپنے محسنوں کو فراموش کردیتی ہے ، تاریخ بھی اس قوم 
کو فراموش کردیتی ہے ۔ 
مولانا آزاد ‘ ایک ایسی جامع شخصیت کانام ہے جسے قسّامِ ازل نے متنوع کمالات کا جامع بنایا تھا ۔ عالم ‘ مفسّر، محدث‘ فقیہہ ‘ مؤرخ ‘ فلسفی‘ متکلم ‘ مفکّر‘ ادیب ‘ صحافی ‘ انشا پرداز ‘ نقّاد ‘ دانشور ‘ سیاست دان ‘ ماہرِ تعلیم ۔۔۔ الغرض مولاناابوالکلام آزاد کی شخصیت فطرت کا ایک ایسا حسین گلدستہ تھی‘ جسے قدرت نے موزون و متناسب گلہائے رنگارنگ سے سجایا تھا ۔ 
مولانا آزاد ‘ دنیائے ادب میں بطورِ بے نظیر صاحبِ اسلوب نثر نگار ‘ بے بدل قلمکار‘ 
بے باک صحافی ‘بے مثل خطیب‘ دلچسپ مکتوب نگار‘ تذکرہ نگاراور دانشور نقّاد کی حیثیت سے معروف ہیں ۔ 
مولانا ابوالکلام آزاد کو قدرت نے عبقریت سے نوازا تھا ۔ آپ کو فہم و فراست ‘
حکمت و تدبّر ‘ ذہانت و ذکاوت ‘ بذلہ سنجی و معاملہ فہمی ‘ نکتہ شناسی و نکتہ آفرینی کا حظِ وافر بارگاہِ ایزدی سے ودیعت ہواتھا ۔ جس کی وجہ سے آپ کی شخصیت ’’نابغۂ عصر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
مولانا آزاد کی تحریروں میں بھی یہی وصف ملتا ہے کہ انھوں نے اپنی راہ الگ نکالی ہے ۔ تفرد و امتیاز ‘ آپ کی ادبی شخصیت کا اہم وصف ہے۔ آپ نے تحریر و تقریر میں اپنی راہ الگ نکالی ہے ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ایک غیور و خود دار ‘ حسّاس و باوقارشخصیت و کردار کے حامل تھے۔ایک جگہ’ تذکرہ‘ میں اپنی افتادِ طبع بلکہ اسی ذاتی وصف کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’۔۔۔۔۔۔جہاں کہیں رہے اور جس رنگ میں رہے‘ کبھی کسی دوسرے کے نقشِ قدم کی تلاش نہ ہوئی۔ اپنی راہ خود ہی نکالی اور دوسروں کے لئے اپنا نقشِ قدم راہنما چھوڑا۔ ‘‘ 
مولانا آزاد نے اردو میں ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ جاری کئے ۔ ان اخبارات میں آپ نے اپنے قومی و ملّی افکار کو پیش کیا، ملّتِ اسلامیہ کے کردار کو واضح کیا ، اردو صحافت کو وقار عطا کیا ،
بلکہ صحافت کو معیار اور پایۂ استناد و اعتبار عطا کیا۔ 
آپ نے اپنی تصنیف ’تذکرہ‘ کے ذریعہ ہندوستان کی ملّی تاریخ کے شاندار ابواب کو محفوظ کردیا ۔ حق و صداقت اور دعوت و عزیمت کی داستانیں اپنے پُر جوش اسلوب میں اس طرح تحریر کیں کہ تاریخی حکایات اور واقعات متحرک نظر آنے لگیں۔ ان تحریروں میں مولاناآزاد ‘نرے مؤرخ نظر نہیں آتے بلکہ دعوتِ انقلاب اور پیغامِ حرکت و عمل دینے والے ایسے مفکّر ‘ مبلّغ اور دانشور نظر آتے ہیں جو ناقۂ حجاز کے حدی خواں ، جادہ پیما ہونے والے قافلہ کے لئے بانگِ درا لگانے والا اور راہِ حق پر گامزن ہونے والوں کے لئے ایک رہنمائے حقیقت ‘ ہادئ برحق اور رہبرِ کامل ہو۔ 
مولانا آزاد نے’ تذکرہ ‘ میں حق و صداقت ، امانت و دیانت ، عجز و تواضع اور حق پسندی و حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے ۔ اسلامی مزاج کی وضاحت کرتے ہوئے حسب ونسب اور اپنی خاندانی عظمتوں پر فخر ومباہات نہیں کیا ہے بلکہ تحدیثِ نعمت اور اظہارِ حقیقت سے کام لیا ہے ۔ 
مولانا آزاد نے اپنے خطوط کے مجموعے ’غبارِ خاطر‘ میں مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ قلعۂ احمد نگر کی قید و بند اور اسارت و نظر بندی کے دور میں لکھے ہوئے خطوط ادبِ عالیہ میں ایک گراں قدر اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ 
اردو ادب میں کوئی کتاب ’غبارِ خاطر ‘ کا جواب نہیں پیش کرسکتی ۔ آپ نے اپنے زورِ قلم سے انشا پردازی کے بے مثل جواہر پاروں کو ’غبارِ خاطر‘ کی زینت بنایا ہے ۔ ’غبارِ خاطر‘ مولانا آزاد کا ایک ادبی شاہکار ہے ۔ قلعۂ احمد نگر کے واقعات و مشاہدات اور مولانا آزاد کے مختلف موضوعات پر پیش کردہ افکار و خیالات ‘ اپنی انفرادیت ‘ اسلوب کی دلکشی اور طرزِ نگارش کی جاذبیت کے باعث ’’غبارِ خاطر‘‘ ناقدانِ ادب کو ہمیشہ اپنی جانب متوجہ کرتی رہی ہے۔ 
قیدو بند کی صعوبتوں کے با وجود ‘ ایک جگہ ’غبارِ خاطر ‘ میں لکھتے ہیں : 
’’۔۔۔۔۔۔جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو ، جہاں شام ہر روز پردۂ شب میں چھپ جاتی ہو ، جس کی راتیں کبھی ستاروں کی قندیلوں سے جگمگانے لگتی ہوں ، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو، جہاں دوپہر ہر روز چمکے ، شفق ہر روز نکھرے ، پرند ہر صبح و شام چہکیں ، اسے قید خانہ ہونے پر بھی عیش و عشرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے ۔ ‘‘
’ غبار خاطر‘ میں مرصع کاری‘ رنگینی اور آراستگی کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں ۔ لفظی رعایات و مناسبات ، جملوں کی متوازن ترکیب و ترتیب کے بدلے ہوئے پیرائے ، نت نئے تلازمات اور نادر ترکیبات ، ’ غبار خاطر‘ کی دلآویزی اور دلکشی میں اور بھی اضافہ کرتے ہیں ۔ قاری ‘ مولانا آزاد کی تحریروں کے طلسم میں قید ہوکر رہ جاتا ہے ۔ 
غبارِ خاطر میں مولانا آزاد نے جو مکتوبات پیش کئے ہیں ،ان میں معنی کے بجائے لفظ اہم ہے اور بیان کے بجائے طرز بیان ، ان میں مواد کی وہ اہمیت نہیں جو اظہا ر کی ہے ، مولانا آزاد نے اظہاری اسلوب کے ذریعہ غبار خاطرکی نثر میں وہی داخلی تاثیر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو شاعری میں ملتا ہے، غبار خاطر کے بعض نثر پارے قاری کو ایک مخصوص جمالیاتی تجربہ کا احساس دلاتے ہیں ۔ حکایت زاغ و بلبل کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو : 
’’ زمستان کی برف باری اور پت جھڑ کے بعد جب موسم کا رخ پلٹنے لگتا ہے اور بہار اپنی ساری رعنائیوں اور جلوہ فروشیوں کے ساتھ باغ و صحرا پر چھاجاتی ہے تو اس وقت برف کی بے رحمیوں سے ٹھٹھری ہوئی دنیا یکایک محسوس کرنے لگتی ہے کہ اب موت کی افسردگیوں کی جگہ زندگی کی سرگرمیوں کی ایک نئی دنیا نمودار ہوگئی ، انسان اپنے جسم کے اندر دیکھتا ہے تو زندگی کا تازہ خون ایک ایک رگ کے اندر ابلتا دکھائی دیتا ہے ، اپنے سے باہر دیکھتا ہے تو فضا کا ایک ایک ذرّہ عیش و نشاط ہستی کی سرمستیوں میں رقص کرتا نظرآتا ہے ۔ آسمان و زمین کی ہر چیز جو کل تک محرومیوں کی سواری اور افسردگیوں کی جان کاہی تھی، آج آنکھ کھولئے تو حسن کی عشوہ طرازی ہے ، کان لگائیے تو نغمہ کی جاں نوازی ہے، سونگھئے تو سرتا سر بو کی عطر بیزی ہے۔ ‘‘
مولاناآزاد کے فنِ تقریر کے ملکۂ خدا داد اور زورِ خطابت کا زندہ ثبوت ’خطباتِ آزاد‘ ہے ۔ آپ نے جس طرح مختلف مواقع پرخطبات میں اپنے افکارو نظریات پیش کئے ، ان کے مطالعہ سے تقریر میں تحریر کے کمال کا اندازہ ہوتا ہے ۔آپ نے فصاحت و بلاغت کے دریا اپنی تحریروں میں بہائے ہیں ۔ بلاشبہ خطبات میں کہیں کہیں طنز و تعریض کے تیر و نشتر بھی ملتے ہیں ، لیکن بہ ایں ہمہ آپ کی زبان و بیان ، طرزِ اظہار اور اندازِ بیان ‘ بالخصوص آپ کی قرآنی تعبیرات ‘ تلمیحات و استعارات‘ اشارات و کنایات اور طرزِ تخاطب کے مختلف پیرایے آپ کی عبقری شخصیت ‘ ذہانت و ذکاوت ‘ فراست و فطانت ‘ کے مختلف پہلوؤں کو طشت ازبام کرتے ہیں ۔
یہاں‘مولانا آزاد کے بارے میں نقادانِ ادب کے چند خیالات پیش ہیں، جن سے مولاناآزاد کی عظیم عبقری شخصیت کے مختلف زاویوں کی نشاندہی ہوسکتی ہے، یا پھر اردو کے ستم پیشہ نقادوں کی کم ظرفی و کوتاہ اندیشی کا ثبوت ملتا ہے۔
مولانا سید صباح الدین عبد الرحمن نے مولانا آزاد کے اسلوبِ بیان کو اردو کے عناصرِ خمسہ ( سرسید ، شبلی ، حالی ، نذیر احمد محمد حسین آزادؔ ) کی تکمیل قراردیا ، فرماتے ہیں: 
’’ مولانا آزا د کے اسلوبِ بیان سے وہ کمی پوری ہوگئی ‘ جو اردو کے عناصرِ خمسہ کے اسلوب میں رہ گئی تھی ۔ کیوں کہ مولانا نے مشکل الفاظ وفقروں کو ایسے حسنِ تناسب سے استعمال کیا ہے کہ دروبست کی خوبی و موزونی سے ان میں فصاحت پیدا ہوگئی ہے اوروہ صحیفۂ ادب بن گئے ہیں۔ جس طرح غالبؔ کی مشک پسندی سے اردو غزل دقیق و عمیق خیالات کی متحمل ہوئی ، اسی طرح مولانا کے بلند آہنگ الفاظ اور ترکیبوں کے ذریعہ وجود میں آنے والی
مؤثر ودل آویز تحریر کے نمونوں نے یہ ثابت کردیا کہ دقیق و خشک مضامین میں بھی کیفیت و حلاوت اوردل ربایانہ شان پیدا کی جا سکتی ہے ‘ اور یہ مولانا کی سحر طرازی اور قدرتِ بیان کا نتیجہ ہے ۔‘‘
مولانا عبد الماجد دریا آبادی ’ الہلال ‘ کے اسلوب پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں: 
’’خدا جانے کتنے نئے اور بھاری بھرکم لغات اور نئی تیرکیبیں‘ نئی تشبیہات ،نئے استعارے اورنئے اسلوبِ بیان ہر ہفتہ اس ادبی اور علمی ٹکسال سے ڈھل ڈھل کر باہر نکلنے لگے اور جاذبیت کا یہ عالم تھا کہ نکلتے ہی سکّہ رائج الوقت بن گئے ، حالیؔ و شبلیؔ کی سلاست و سادگی سرپیٹتی رہی، اکبرؔ الٰہ آبادی اور عبدالحق بابائے اردو سب ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے ۔ ‘‘ 
اور پروفیسر رشید احمد صدیقی مولانا کے اسلوب بیان کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں : 
’’ مولانا کا اسلوبِ تحریر وہ ان کی شخصیت تھی اور ان کی شخصیت ان کا اسلوب دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیاجاسکتا ، صاحبِ طرز کی ایک نشانی یہ بھی ہے ۔ مولانا کے لکھنے کاانداز، لب و لہجہ اور مزاج قرآنِ پاک سے لیا ہے جو ان کے مزاج کے مطابق تھا ، وہی اندازِ بیان اور زورِ کلام جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پہاڑوں پر رعشۂ سیماب طاری کردیتا ہے ۔‘‘
مولانا کی نثر کو دیکھ کر سید سجاد حیدر یلدرم کہہ پڑے :
’’ میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن‘ عربی میں نازل نہ ہوتا تو مولانا ابوالکلام کی نثر منتخب ہوتی یا اقبال ؔ کی نظم۔‘‘
حسرت ؔ موہانی اپنی شاعری کو مولانا کی نثر کے سامنے بے حقیقت خیال فرماتے ہیں :
جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر 
نظمِ حسرتؔ میں بھی مزہ نہ رہا
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے لکھا ہے کہ شیخ ناسخؔ کے بعد اردو میں الفاظ ڈھالنے کا کمال صرف ابوالکلام کے پاس تھا ۔
ڈاکٹر سید عبد اللہ ‘ ’ غبارِ خاطر‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اس میں ابوالکلام کا قلم بیمار اور ضعیف معلوم ہوتا ہے ، یہ جواں ابوالکلام کی تصنیف نہیں ، کہن سال ابوالکلام کی تصنیف ہے ۔‘‘
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے : 
’’ فقروں میں مسلح ،اور جوش ترتیب فوج کاسا جلال اور شکوہ ہے ، الفاظ میں نقارہ و دھل کا شور وہنگامہ ، جملوں میں آتش خانوں کی سی گرمی ہے ، جس نے مصلحتوں کی برف کو پگھلادیا ۔‘‘
قاضی عبد الودود نے مولانا آزاد کی تحریر کو ZERO قرار دے کر اپنے متعصب ذہن کا ثبوت فراہم کردیا ۔
( رقصِ شرر ۔ پروفیسر ملک زادہ منظور ۔ ملاقات قاضی عبدالودود ) 
اردو کے بیشتر کم نظر نقاد مولانا آزاد کے اسلوب کے شاکی رہتے ہیں ، کہ معرّب مفرّس اسلوبِ تحریر سے مولانا آزاد نے کون سا تیر مارا۔ ؟ 
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے 
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں