مولانا ابوالکلام آزاد :
بحیثیت شاعر
Maulana Azad : as a poet
ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اردو،گورنمنٹ ڈگری کالج،
پلمنیر ۔ ضلع چتور ( آندھراپردیش)
تعارف:(An
Introduction)
اِ س سمینار کے مقالہ Seminar Paperمیں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان
کے مشہور عالم دین ، مجاہدِ آزادی ، امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؔ کی مشہور
نابغۂ روزگار شخصیت کے شاعرانہ پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ بہ الفاظِ دیگر مولانا
آزاد کی شاعرانہ حیثیت اور شاعرانہ کمالات کو اِس مقالہ میں اجاگر کیا گیا ہے۔
مقاصد
:(OBJECTIVES)
اِ س سمینار کے مقالہ Seminar Paperمیں جن مقاصد کوپیشِ نظر رکھا
گیا ہے، کچھ اِس طرح ہیں:
(۱) مولانا آزاد کی عبقری شخصیت کے شاعرانہ
پہلو کو اجاگر کرنا۔
(۲) مولانا آزاد کی شاعری کااجمالی جائزہ
لینا۔
(۳) مولانا آزاد کی شاعری کا احاطہ کرنا۔
(۴) اردو میں مولانا آزاد کا بحیثیتِ شاعر
تعارف کروانا۔
(۵) مولانا آزاد کی غزلوں کے اندازِ بیان
اورمحاسنِ کلام کی نشاندہی کرنا ۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی شاعری کے بارے میں یہ بات قطعیت
کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کم سِنی اور عنفوانِ شباب کے دور میں شاعری کی
ہے ۔ گویا مولانا آزاد کی شاعری ، ابتدائی مشقِ سخن کی رہینِ منت ہیں ۔
حسرتؔ موہانی نے مولانا ابوالکلام کی مرصع نثر سے متاثر
ہوکر کہا تھا
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر نظم ِ حسرتؔ میں کچھ مزانہ
رہا
اگر واقعی مولانا آزاد اپنی مشقِ سخن جاری رکھتے اور شاعری
میں مضامینِ نو کے انبار لگا دیتے تو حسرتؔ جیسے شعراء کا کیا حال ہوتا؟
مفروضہ اورپس منظر:(The Hypothesis)
یہ مقالہ اِس مفروضہ کی بنیاد پر محیط ہے کہ مولانا
ابوالکلام آزاد ؔ ایک بہت بڑے شاعر بھی ہیں۔لیکن آپ کی شاعرانہ حیثیت ‘ آپ کی دیگر
حیثیتوں میں رو پوش ہوکر رہ گئی ہے۔ اِ س مقالہ کی پیش کش کا مقصد یہ ہے کہ مولانا
آزادکی شاعری کی جانب محققین متوجہ ہوجائیں اور اُس دور کے صحیفوں اور سفینوں میں
شامل مولانا آزاد کا کلام یکجا کیا جائے اور اِس موضوع پر حقِ تحقیق ادا کیا جائے۔
اِس مقالہ میں مولانا آزاد کی شاعری کا ایک مختصر اور جامع
تعارف پیش کیا جائے گا اور نمونۂ کلام بھی پیش کیا جائے گا۔
**************
مولانا ابوالکلام آزاد : بحیثیت شاعر
مشاہیر کے ساتھ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کے جو
نمایاں پہلو ہوتے ہیں ‘ صرف وہی معروف اور قابلِ توجہ ہوتے ہیں ۔ بلکہ صرف انہیں
پہلوؤں کو درخورِ اعتنا ء سمجھا جاتا ہے ‘ جو معروف ہوں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عظیم شخصیات کا دائرۂ کار کسی مخصوص
میدان تک محدود نہیں رہتا ، بلکہ ازراہِ تفننِ طبع وہ دوسرے میدانوں میں بھی طبع
آزمائی کرتے ہیں ۔ جن میدانوں میں شہرت نہیں ملتی ، ان میں بھی عبقری شخصیات کا
امتیاز رہتا ہے ۔
علامہ سید سلیمان ندوی ‘ مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر
علی خاں ، علامہ قاری طیب اور مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار ایسے ہی شعراء میں
ہوتا ہے ، جن کے مختلف کمالات اور نمایاں کارناموں کی وجہ سے ان کی شخصیت کے
شاعرانہ پہلو اور ان کی شاعری پر توجہ نہیں دی گئی۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی شاعری کے بارے میں یہ بات قطعیت
کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کم سِنی اور عنفوانِ شباب کے دور میں شاعری کی
ہے ۔ گویا مولانا آزاد کی شاعری ، ابتدائی مشقِ سخن کی رہینِ منت ہیں ۔
مولانا آزاد کا کلام ، اس عہد کے بہت سے معیاری رسائل و
جرائد اور مجلات میں شائع ہوتا تھا ۔
یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ بچپن سے ہی میں
مولانا آزاد کے ذہن میں یہ بات نقش ہوگئی تھی کہ شاعر ہونا ایک کمال ہے اور بطورِ
شاعر اپنے کلام کو رسائل میں شائع کرواناایک کارنامہ سے کم نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں
خو د مولانا آزاد نے اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھا ہے ۔
مولانا آزاد کاکلام‘ رسائل و جرائد اور گلدستوں میں شائع
ہواہے ۔ انھوں نے گلدستوں کے لئے بطورِ خاص غزلیں بھی کہیں ۔ کیونکہ اس عہد میں
گلدستوں میں مصرعۂ طرح دیا جاتا تھا ۔ مثال کے طور پر وہ مشہور غزل، جس کا مصرعۂ
طرح تھا ع
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی
مولاناآزاد کی دستیاب غرلیں ہر چند کہ تعداد میں بہت کم ہیں
، تاہم اہمیت کی حامل ضرور ہیں ۔ اگر کوئی محقق اس عہد کے تمام رسائل و جرائد و
مجلات کی فائلوں سے مولانا آزاد کا مطبوعہ کلام یکجا کرے تو بجائے خود یہ بھی ایک
اہم کام ہوگا۔
مولانا آزاد کی شاعری پر کلاسیکیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے
۔ انھوں نے اپنے کلام میں روایتی طرزِ تغزّل کا بھر پور خیال رکھا ہے اور غزل کے
فنّی لوازم کا التزام کیا ہے ۔
مولاناآزاد کی غزلوں میں داغؔ دہلوی، مومن خاں مومن ؔ اور
حسرتؔ موہانی کی غزلوں کی سی جھلک ملتی ہے ۔
حسرتؔ موہانی نے مولانا ابوالکلام کی مرصع نثر سے متاثر
ہوکر کہا تھا
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر نظم ِ حسرتؔ میں کچھ مزانہ
رہا
اگر واقعی مولانا آزاد اپنی مشقِ سخن جاری رکھتے اور شاعری
میں مضامینِ نو کے انبار لگا دیتے تو حسرتؔ جیسے شعراء کا کیا حال ہوتا؟
آفتاب آمد ، دلیل ِ آفتاب
شاعری کے سلسلہ میں مولانا آزاد کارویہ یہ رہا ہے کہ آپ
جمالیاتی دبستانِ شعر سے قریب نظرآتے ہیں ۔ آپ کی شاعری اور موسیقی کو ایک ہی
حقیقت کے دو مختلف پہلو قرار دیتے ہیں ۔ غبارِ خاطرمیں لکھتے ہیں :
’’موسیقی اور شاعری ایک ہی حقیقت کے دو مختلف جلوے ہیں ۔
اور ٹھیک ایک ہی طریقہ پرظہور پذیر ہوتے ہیں۔ یہ وہی معانی ہیں جو موسیقی کی زبان
میں ابھرنے لگتے ہیں ۔ اگر یہ شعر کا جامہ پہن لیتے تو کبھی حافظ کا ترانا ہوتا‘
کبھی خیام کا زمزمہ ، کبھی شیلے کی ماتم سرائیاں ہوتیں ، کبھی ورڈس ورتھ کی حقائق
سرائیاں ۔ ‘‘ (غبارِ خاطر)
مولانا آزاد اور علامہ اقبال کی فکر میں کسی حد تک یکسانیت
اور مطابقت بھی نظر آتی ہے ۔ اگر مولانا آزاد نے اقبال کی طرح اپنی شاعری کو اپنے
افکار کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہوتا تو توارد کی بہت سی مثالیں شائقینِ ادب کی
تفریح کا سامان بن سکتی تھیں ۔ ایک مثال پیش ہے :
مولانا آزاد کی نثر:
’’ میں آپ کو بتلاؤں ، اس راہ میں میری کامرانیوں کا راز
کیا ہے ؟ میں اپنے دل کو مرنے نہیں دیتا ،
کوئی حالت ہو ، کوئی جگہ ہو، اس کی تڑپ کبھی دھیمی نہیں پڑے
گی۔ (غبارِ خاطر)
شعرِ اقبال : مجھے ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگی
عبارت ہے تیرے جینے سے
مولانا آزاد نے شعر گوئی کامشغلہ ۱۱، ۱۲ سال کی عمر سے شروع کیا ۔ پہلی غزل ’’ارمغانِ فرخ ۔ بمبئی ‘‘ میں
شائع ہوئی ۔ اس وقت آپ کی عمر صرف بارہ سال تھی۔مشقِ سخن کے اس ابتدائی دور میں آپ
فصیح الملک نواب مرزا داغ ؔ دہلوی اور امیرالشعراء حضرت امیرؔ مینائی سے اصلاح
لیتے تھے۔ اسی زمانے میں مولاناآزاد نے ایک شعری مجلہ بنام ’’نیرنگِ عالم ‘‘ شائع
کیا ،جو تقریباً آٹھ مہینے چھپتا رہا۔
مولاناآزاد کی دستیاب مطبوعہ پہلی غزل ، چار اشعار پر مشتمل
ہے :
نشتر بہ دل ہے آہ کسی سخت جان کی
نکلی صدا تو فصد کھلے گی زبان کی
گنبد ہے گردبار توہے شامیانہ گرد
ہوں نرم دل کہ دوست کی مانند رودیا
آزاد ؔ بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
’’پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی ‘‘
مولانا آزاد کی اس غزل سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ میں شعر
گوئی کا فطری ملکہ تھا ۔ یہ کسبی صلاحیت نہیں ، بلکہ خداداد صلاحیت تھی ۔کیوں اسیرِ گیسوئے خم دار قاتل ہوگیا
کوئی نالاں ، کوئی گریاں ، کوئی بسمل ہوگیا
انتظار اُس گل کا اس درجہ کیا گلزار میں
اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
یہ بھی قیدی ہوگیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہوگیا
معاملہ بندی ، نازک خیالی ، مکالماتی انداز اور محاکاتی اسلوب کے پیشِ نظر مولانا آزاد کی غزلوں پر داغؔ کے کلام کا دھوکا ہوتاہے۔
یہ دل ہے مگر دل میں بسا اور ہی کچھ ہے
ہم آپ کی محفل میں نہ آنے کو نہ آتے
بے خود بھی ہیں ہشیار بھی ہیں دیکھنے والے
آزادؔ ہوں اور گیسوئے پیچاں میں گرفتار
کہہ دو مجھے کا تم نے سنا اور ہی کچھ ہے
اب زندہ دلی کہاں سے باقی ساقی
میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا
مے کش ، مے کش رہا نہ ساقی ، ساقی
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
اِ س سمینار کے مقالہ Seminar Paperمیں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؔ کی مشہور نابغۂ روزگار شخصیت کے حامل ہیں، اور آپ کے شاعرانہ پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر مولانا آزاد کی شاعرانہ حیثیت اور شاعرانہ کمالات کو اِس مقالہ میں اجاگر کیا گیا ہے۔
کتابیات:(Bibliography)
اس مقالہ کی تسوید کے دوران مندرجۂ ذیل کتابوں اور انٹرنٹ کے ذرائع سے استفادہ کیا گیا ہے۔
(۱) تذکرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابوالکلام آزاد
(۲) غبارِ خاطر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا ابوالکلام آزاد
(۳) مولانا ابوالکلام آزاد کی کہانی ۔ کچھ
میری کچھ اُن کی زبانی . عبد الرزاق ملیح آبادی
(۴) مولانا ابوالکلام آزاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔عبد القوی دسنوی
(۵) مولانا ابوالکلام آزاد ۔شخصیت اور
کارنامے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلیق انجم
(۶) مولانا ابوالکلام
آزاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا محمد شعیب عمری
(۷) مولانا ابوالکلام آزاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا
عباس عمری
(۸) بزمِ ارجمنداں۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اسحاق بھٹّی
(۹) مولانا ابوالکلام آزاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ابو سلمان شاہ جہاں پوری
(۱۰) دس عالم شعراء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظہیر دانش
عمری
DR. SYED VASIULLA BAKHTIARY,
Assistant Professor of Urdu,
Government Degree & PG College,
PALAMANER - 517 408
CHITTOOR DISTRICT. (A.P)
Email: vasibbakhtiary@gmail.com
departmentofurdu@gmaiil.com
Mobile: +91 9595785402.
ماشاء اللہ بہت خوب معلومات، اگر مزید مولانا کی شاعری اور اسلوب پر معلومات ہو تو روانہ فرمایں،عین نوازش ہوگی
جواب دیںحذف کریں