صفحات

بدھ، 24 اپریل، 2013

اردو تحقیق کے حدود اور دائرۂ کار ۔ چند معروضات




اردو تحقیق کے حدود اور دائرۂ کار ۔ چند معروضات


مجھے حضرت خمارؔ بارہ بنکوی کا ایک شعر بہت پسند ہے ، میں اسی سے اپنے مقالے کا آغاز کرنا چاہتا ہوں ؂
گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے 
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے !
بنیادی طور پر تحقیق کی دو قسمیں کی جاسکتی ہیں، سندی تحقیق اور غیر سندی تحقیق ؛کسی سند یا ڈگری کے حصول کے لئے جو تحقیق کی جاتی ہے ، سندی تحقیق ہے ، اور وہ تحقیق جو محض برائے تحقیق ہوتی ہے ‘ غیر سندی تحقیق کہلاتی ہے ۔ 
فی زمانہ مروجہ جامعاتی تحقیق کا تعلق بالعموم سند ی تحقیق ہی سے ہے ۔ آج تحقیق جن مسائل سے دوچار ہے ‘ اس کی اساس یہی ہے کہ محقق
مسائل سے دوچار ہے ۔
تحقیق ‘کسی بھی زبان وادب ہی نہیں بلکہ کسی بھی موضوع کے لئے نہایت اعلیٰ اور بلند مقام و مرتبہ کی حامل شئے ہے ، کیوں کہ تحقیق ہی کی بنیاد پر صحیح نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں ۔ تحقیق میں اگر ذرا بھی زاویۂ نگاہ بدل جائے تو منظر نامہ کو بھی بدلتے دیر نہیں لگتی ۔ 
وہ زمانہ نہیں رہا کہ لیلائے تحقیق کے زلف وگیسو کو بغیر کسی مقصد کے لئے سنوارا جاتا تھا۔ محقق ‘ اپنے موضوع سے متعلق گویا زبانِ حال سے کہتا تھا: ’’ زشوقِ بندگی پروردگارے کردہ ام پیدا‘‘ کہ میں نے شوقِ بندگی سے اپنے لئے ایک خدا بنالیا ہے ،تاکہ میں اس کی پرستش کرکے اپنی بندگی کے جذبات کی تسکین کاسامان کرسکوں ۔
تحقیق محض برائے تحقیق کی جاتی تھی ، علم وادب کا حصول‘ زندگی کی اعلیٰ قدروں کے حصول اور انسانیت و شرافت کے لئے ہو تا تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ علم وادب کا حصول بھی مادّی ضروریات اور دنیاوی منافع ہی کے لئے ہوتا ہے ۔ 
المیہ یہ ہے کہ علم وادب کی تحصیل اور تحقیق کی سند کے حصول کا مقصد ہی مادّی منفعت ہے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مقصد کے زبوں ہونے سے خود طریقۂ کا ر اور نکتۂ نظر بھی زبوں ہوکر رہ جاتا ہے ۔ 
اگر آج علامہ شبلی نعمانی، مولوی عبد الحق ،قاضی عبد الودود ، ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ ، علامہ سید سلیمان ندوی ، ڈاکٹر حفیظ قتیل، مشفق خواجہ جیسے محقق ناپید ہیں ، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ مقاصد اورطریقۂ کا ر میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اُن عظیم محققین کا مقصدِ وحید تحقیق برائے تحقیق اور زبان و ادب کی خدمت ہوتا تھا۔ 
بلاء استثناء کسی بھی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر کا مقصدِ و حید ڈگری کا حصول ہوتاہے ، جس کے لئے کسی بھی ذریعہ اور طریقہ کا استعمال روا رکھا جاتا ہے۔ اولاً موضوع ہی ایسا منتخب کیا جاتا ہے کہ منزلِ مقصود تک رسائی آسان ہو ، بلکہ بغیر کسی دشواری کے میز ہی پر سارا کام ہوجائے ۔ اور پھر مواد کے حصول میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو ۔ 
میرا یہ ماننا ہے کہ ریسرچ اسکالرز کے اِ س رویہ کے لئے انہیں کسی طرح قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ اس لئے کہ ان کی مجبوریا ں ‘ ان کے اِس رویہ کی تائید اور پشت پناہی کرتی نظر آتی ہیں ۔ 
گریجویشن تک کی تعلیم ( خواہ وہ کسی بھی ڈسپلن کی ہو ) کے بعد بیچارہ اردوکا اسکالر اردو میں ایم.اے کرتا ہے ،ایک پائیدان ایم .فل کا ہوتو ہو ، ورنہ پی ایچ.ڈی میں داخلہ لینے کے بعد حیران وپریشان کہ کیا کیا جائے ؟ 
نہ ادب سے مناسبت ، نہ ادبی ذوق ، نہ معیاری ادب کا مطالعہ ، نہ کلاسیکی ادب سے آگہی، نہ معاصر ادب کی صورتِ حال سے واقفیت ، نہ ادبی رجحانات ومیلانا ت سے آشنائی ، نہ مضمون نگاری کی مشق ، نہ با محاورہ زبان سے شنا سائی ،نہ تجزیہ و تنقید کی صلاحیت ۔۔۔ 
آخر ایک اسکالر کرے تو کیا کرے؟ نصابی متون کو تک اُس نے نہیں پڑھا ، بلکہ سالہا سال پرانی نوٹس کام آگئی ، اُسی سے کام چل گیا، اصنافِ ادب کے مطالعہ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ۔ درجۂ اول ‘ بلکہ درجۂ اعلیٰ میں ایم .اے کامیاب ہوگیا۔ اب اگر پی ایچ. ڈی بھی ہوجائے تو بیل منڈھے چڑھے ۔ 
بیشتر ہمارے اسکالرز‘ عمرعزیز کے اُس مرحلہ پر ہوتے ہیں کہ اُن کی اولین ترجیح ملازمت کا حصول اور اس مسئلہ کے حل کے لئے تحقیق کی ڈگری کا حصول ہوتا ہے ۔ تحقیق کے لئے جس ذہنی یکسوئی ، فکری ارتکاز اور شوق و جستجو کی ضرورت ہوتی ہے ، فکرِ معاش انہیں اِ س سے محروم کردیتا ہے۔ 



ہمارے ہاں ریسرچ اسکالرز / محققینِ جامعات موضوع کا انتخاب ہی اس شرط پر کرتے ہیں کہ مواد موجود ہے یا نہیں ۔ دو یا تین تحقیقی مقالات کوسامنے رکھ کر ایک شاندار مقالہ لکھا جاتا ہے۔ صفحات کے صفحات جو بغیر حوالے کے نقل کئے جاتے ہیں ، سو الگ۔ 
علاقائی ادب پر تحقیق کا وہ طومار مچاہے کہ چپ ہی بہتر۔ آندھرا کا ’رائل سیما‘ ہو یا ’تلنگانہ‘ کرناٹک کا ’ ملناڈ‘ہو یا ’ حیدرآباد کرناٹک‘ تاملناڈو کا ’ شمالی آرکاٹ ‘ ہو یا کیرلا کا ’ ملبار‘ ۔ یو.پی کا ’بندیل کھنڈ‘ ہو یا ’ روہیل کھنڈ‘ ۔بہار کا ’متھلانچل ‘ ہو یا ’ بہار شریف‘ ۔ مہاراشٹر کا ’ مرٹھواڑہ ‘ ہو یا مدھیہ پردیش کی ’ریاستِ بھوپال‘ ۔ بلاشبہ اردومیں’’ علاقائی ادب ‘‘پر وہ دادِ تحقیق دی گئی ہے کہ تاریخِ اد ب میں گویا ایک گراں قدر اضافہ ہے ۔ اس کے بعد مرحلہ شہروں کا آتا ہے کہ ایک ایک شہر کے شعراء وادباء محقق کا تختۂ مشق بنتے ہیں۔ 
اب اگر ایسے اسکالرز سے کہا جائے کہ قاضی عبدالودود کو اپنا آئیڈیل بناؤ اور اردو ادب کے بحرِ بیکراں کی غواصی کرکے دُرِ آبدار اور گُہر ہائے صدف لے آؤ تو بیچارہ کیا کرے گا؟’ اندھا کیا چاہے : دوآنکھیں ‘ کے مصداق وہ چاہے گا کہ بس آپ پی ایچ. ڈی کی ڈگری دیدیں۔ 
کسی شعبۂ اردو کے ایک ریسرچ اسکالر کی حکایت ہے کہ ایک دن شعبۂ اردو میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ۔ ایک اسکالر ، جسے ایک جُغادری سا موضوع دیدیا گیا تھا ، اپنے نگران ورہنما کو بتلانے کے لئے بار بار مقالہ کا حصہ لکھ کر لے جاتا، موصوف اسے دوبارہ لکھنے کے لئے کہتے ، کئی مرتبہ کے بعد رہنما نے درشت لہجہ میں کہا ‘ تم سے اتنا بھی نہیں لکھا جا تا ؛ اسکالر نے اپنی بیاض وہیں دے ماری اور سیخ پا ہوکر کہا: مجھے آپ نے لکھنے کا طریقہ ہی نہیں بتا یا ، مجھے مضمون نگاری نہیں آتی ،میں نے بی.ایس.سی کیا ہے ‘ ایک مضمون اردو کے ساتھ اور ایم .اے کے بعد آپ کی تحویل میں آگیا ہوں ۔اگر آپ مجھے بتاتے کہ کس طرح لکھا جاتاہے توبجا تھا کہ آپ مجھ پر خفا ہوتے ۔ مجھے ریسرچ کی ڈگری نہیں چاہیئے ۔ خداحافظ! 
قرۃ العین حید ر کی ایک ناول کا کردار مجھے ہمیشہ یاد آتا رہتا ہے ، جس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا کررہے ہو ؟ جواب ملتا ہے کہ اردو میں پی ایچ.ڈی کررہا ہوں ، موضوع کیا ہے ؟۔ جواب: 
’’ لاغر بھساولی ۔ شخصیت اور خدمات‘‘ !!
لاغر بھساولی ‘ موضوع ہو یا نہ ہو ، یہ خود ایک موضوعِ گفتگو ہے کہ کیا ادبی تحقیق کے لئے موضوعات کی کمی ہے ؟ جواب صاف ہے : ادب میں تحقیق طلب بے شمار موضوعات ہیں ۔ مگر جب ’ادب ‘کا مطالعہ ہی نہ کیا جائے تو موضوعات ذہن میں کہاں سے آئیں گے؟ 
ہم اساتذ�ۂادب خود جب ادب نہیں پڑھتے تو طلبہ سے شکایت کیسی ؟ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے ’’ طلسم ہوش ربا ‘‘ سے لیکر ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘ تک کا مطالعہ کیا ہو۔محمد علیم ’’میرے ناولوں کی گمشدہ آواز‘‘ کس کے مطالعہ میں آئی ؟اور جب اساتذۂ قدیم کاکلام ہی نہیں پڑھتے تو جدید شعراء کے مطالعہ کے لئے وقت کہاں سے لائیں؟کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ مہدی افادی ، نیاز فتحپوری ، خواجہ حسن نظامی ، شاہد احمد دہلوی ، مجنوں گورکھپوری وغیرہ کا مطالعہ کرے۔ 
ہم میں کس نے نجم الغنی کی ’’ بحر الفصاحت‘‘ اور انشاء اللہ خان کی ’’ دریائے لطافت‘‘ سے استفادہ کیا ہے ؟ 
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو معاصر ادب کی صورتِ حال سے واقفیت کے لئے ادبی رسائل وجرائد کا مطالعہ خرید کر کرتے ہیں ؟ 
’ مرحوم شب خون‘ ’ ادب ساز‘ ’ نئی کتاب‘ ’ فکروتحقیق‘’ کتاب نما‘وغیرہ تو دور کی بات ہے ، اخبارات کے ادبی ایڈیشن تک کو لوگ نہیں پڑھتے۔ اب اگر کوئی نام لے ’ سیارہ ‘ ’ بادبان‘ ’جریدہ ‘’ آج‘’ رسالۂ اردو‘کا تو کہیں گے کہ سرحد پار کے مجلات پر قدغن ہے ۔ 
’’ مشرقی شعریات‘‘ ’’ ساختیات ‘ پس ساختیات ‘‘ ’’ مابعدِ جدیدیت ‘‘ ’’ تشکیل /ردِ تشکیل ‘‘ جدید ادبی تھیوریز اور معاصر تنقیدی رجحانات سے ہماری واقفیت فرضِ محال ہے ۔ 
اس صورتِ حال کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ایسے اسکالرز جن کی افتادِ طبع میں کچھ حقیقی کام کرگزرنے کا شدید جذبہ اور عزم ہوتا ہے ، اور جن میں تحقیقی صلاحیتیں بھی ودیعتِ مزاج ہوتی ہیں، ’’ جمالِ ہم نشیں بر من اثرکرد ‘‘ کہنے لگتے ہیں ۔جب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کافی ہے ‘ تو غوطہ کون لگائے ؟آسان سے موضوع پر ‘آسانی سے ڈگری ملتی ہے تو مشکل موضوع کا انتخاب کرکے تحقیق کی دشوار گزار گھاٹی کون سر کرے ؟ ویسے اِس کی ضرورت بھی کیاہے ؟
سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر سند ی اور غیر سندی تحقیق میں اتنا فرق کیوں ہے ؟ جواب نہایت آسان ہے کہ مقاصد کاتضاد ہی نتائج کے متضاد ہونے کی وجہ ہے ۔ اگر آج اعلان کردیا جائے کہ پی ایچ.ڈی کے لئے ایڈوانس انکریمنٹس نہیں دئے جائیں گے تو شاید ہی کوئی برسرِکار علمبردارِ ادب تحقیق کی ڈگری حاصل کرے گا، اسی طرح اگر یہ قانون نافذ ہوجائے کہ پی ایچ .ڈی کی ڈگری لکچرر شپ کی اہلیت کا معیار نہیں ‘ تو شاید ہی کوئی پی ایچ .ڈی میں ریجسٹریشن کرائے ۔ 
شمس الرحمن فاروقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں پی ایچ .ڈی کی ڈگری بانٹنے والی فیکٹریاں ہیں ۔ فاروقی صاحب کے اس قول کی زد میں یونیورسٹیوں کے اردو شعبے تو آتے ہیں ‘ مگر سوال یہ ہے کہ اگر نام نہاد تحقیق بھی ہمارے شعبوں میں نہ ہو تو شعبوں کی بقاء اور تحفظ کیسے ہوگا؟ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ یونیورسٹیوں کے شعبوں میں کم ازکم ریسرچ میں تو طلبائے عزیز داخلہ لیتے ہیں ۔ 
اس صورتِ حال کے لئے کسی کو الزام نہیں دیا جاسکتا ، یہ مجموعی نظام کی خرابی کا مسئلہ ہے ۔ علم کو فن اور فن کو علم بنادینے کا المیہ ہے ۔ مادّی نکتۂ نظر کا فساد ہے ۔ تعلیم کو تجارت بنانے کا وبال ہے۔سطحی علم پر اکتفاء کرنے کا رجحان ہے ۔کاغذ کے پرزوں کو صلاحیتوں کی بنیاد سمجھنے کا انجام ہے۔ یہ نامختتم سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ۔ بقولِ ذوق:
ع یوں ہی چلے چلو جہاں تک چلی چلے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں