صفحات

بدھ، 13 دسمبر، 2023

مولانا آزاد کا ایک عقیدت مند صحافی — مولانا غلام رسول مہر Maulana Azad Ka Ek Aqeedatmand Sahafi Maulana Ghulam Rasool Mehr - Vasi Bakhtiary - UGC CARE LISTED URDU JOURNAL QAUMI ZABAN Monthly Hyderabad November 2023

مولانا آزاد کا ایک عقیدت مند صحافی — مولانا غلام رسول مہر Maulana Azad Ka Ek Aqeedatmand Sahafi Maulana Ghulam Rasool Mehr - Vasi Bakhtiary - UGC CARE LISTED URDU JOURNAL QAUMI ZABAN Monthly Hyderabad November 2023:

In this paper Vasi Bakhtiary provides a brief overview of the relationship and connections between Maulana Abul Kalam Azad and Maulana Ghulam Rasool Mehr....

In this paper Vasi Bakhtiary provides a brief overview of the relationship and connections between Maulana Abul Kalam Azad and Maulana Ghulam Rasool Mehr. Maulana Ghulam Rasool Mehr published the letters of Maulana Abul Kalam Azad, which were based on correspondence between Maulana Mehr and Maulana Azad. Naqsh-E-Azad (نقشِ آزاد) and Tabarrukat-E-Azad (تبرکاتِ آزاد) and Maulana Azad Nadir-E-Rozgaar Shakhsiyath (مولانا آزاد ایک نادرِ روزگار شخصیت) were the important works of Maulana Ghulam Rasool Mehr. He also translated Maulana Azad's Book "India Wins Freedom" in Urdu "Azadi-E-Hind Ki Kahani" This Paper written by Dr. Syed Vasiulla Bakhtiary (ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری) and Published in UGC CARE Listed Urdu Journal Qaumi Zaban Monthly, published by Telangana State Urdu Academy, Hyderabad in November, 2023, Volume:8, Issue:11, Pages:8-11, ISSN: 2321-4627. اس مقالہ میں وصی بختیاری نے مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا غلام رسول مہر کے درمیان تعلقات اور روابط کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر مولانا ابوالکلام آزاد کے بہت عقیدت مند تھے۔ مولانا غلام رسول مہر نے مولانا ابوالکلام آزاد کے خطوط شائع کیے، جو مولانا مہر اور مولانا آزاد کے درمیان مراسلت پر مبنی تھے۔ "نقشِ آزاد"، "تبرکاتِ آزاد" اور "مولانا آزاد نادرِ روزگار شخصیت" مولانا غلام رسول مہر کی اہم تصانیف تھیں۔ انہوں نے مولانا آزاد کی کتاب انڈیا ونس فریڈم "India Wins Freedom" کا اردو ترجمہ "آزادیٔ ہند کی کہانی" کے نام سے کیا۔ اس کتاب کو مولانا غلام رسول مہر کے فرزندِ ارجمند محترم امجد سلیم علوی صاحب نے دوبارہ شائع کیا ہے۔ یہ مقالہ ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری کی محنت ہے اور نومبر، 2023 کو تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے زیرِ اہتمام شائع ہوا ہے۔ یہ مقالہ یو جی سی کیئر لسٹ میں شامل اردو جریدہ ماہنامہ "قومی زبان" نومبر، 2023ء میں شائع ہوا۔ جلد: 8، شمارہ: 11، صفحات: 8 تا 11، اور آئی ایس ایس این ISSN نمبر 2321-4627 ہے۔ وصــی بــخــتـــیـــاری عمری
Today

اتوار، 20 اگست، 2023

اردو کی ایک گراں مایہ شخصیت: فکر تونسوی

ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری

شعبہئ اردو، گورنمنٹ کالج برائے ذکور (خودمختار)، کڈپہ۔

اردو کی ایک گراں مایہ شخصیت: فکر تونسوی


اردو میں طنز و مزاح کا ایک معتبر نام فکر تونسوی کا ہے۔ وہ اپنے مخصوص اسلوب اور طنز کے تیکھے طرزِ نگارش کی وجہ سے اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے کالم مقبولیت کا ایک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ آج بھی ان کا نام عوام و خواص میں مقبول ہے، ان کی تحریریں شوق سے پڑھی جاتی ہیں کہ فی زمانہ ان کی افادیت اور حالات سے اضافیت بہت بڑھ گئی ہے۔ 

فکر تونسوی کا اصل نام رام لعل بھاٹیہ ہے لیکن وہ ہمیشہ فکر تونسوی کہلانا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر مظفر حنفی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ”میرا اصلی نام فکر تونسوی ہے جو اصلی ہے۔ اور جو نقلی تھا وہ میرے والدین نے رکھا تھا۔ بہت سے لوگ اسی کھوج میں رہے کہ اس کا اصلی نام کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے کھوجا بھی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ انہوں نے غلط کھوج کی۔ نام کو چھوڑیے۔“

فکر تونسوی کی تاریخ پیدائش 7/ اکتوبر 1918 اور تاریخ وفات 12/ ستمبر 1987 ہے۔غیر منقسم ہندوستان کے علاقہ پنجاب کے ایک قصبہ تونسہ شریف میں دھنپت رائے کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم تونسہ میں حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور کا رخ کیا۔ وہیں قیام پذیر ہو گئے۔ ان کی ادبی سرگرمیوں کا آغاز لاہور ہی میں ہوا۔ چند سال بعد ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ فوراً ہندوستان منتقل نہیں ہوئے۔ لیکن ایک مدت بعدحالات نے انہیں ہندوستان آنے پر مجبور کر دیا۔

فکر تونسوی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ ان کا شعری مجموعہ ''ہیولے'' کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ابتدائی دور میں شاعری کے بعد طبعی مناسبت اور حالات کے باعث انہوں نے نثر کی جانب توجہ دی۔ انہوں نے طنز و مزاح اور ظرافت کے میدان میں طبع آزمائی کی۔ بے انتہا مقبولیت اور عوام و خواص میں پسندیدگی نے انہیں اسی میدان میں رہنے اور مستقل لکھنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کالم لکھے۔ طنز و مزاح کے ساتھ ان کی وابستگی تا دم آخر قائم رہی۔ وہ بنیادی طور پر ایک ترقی پسند ادیب تھے۔ انہوں نے پورے شعور کے ساتھ ترقی پسندی اور کمیونسٹ نظریات کو اختیار کیا تھا۔ تا دم آخر وہ ترقی پسند نظریات سے وابستہ رہے۔

ماہنامہ قومی زبان اکتوبر 2022 کے لیے درج ذیل ربط پر کلک کیجیے


Fikr Tounsavi - فکر تونسوی

ResearchGate

Academia

فکر تونسوی اپنے نقطہئ نظر اور طرزِ عمل میں ہمیشہ تعصب سے پاک رہے۔ تقسیم سے قبل بھی، تقسیم کے دوران بھی اور تقسیم کے بعد ہندوستان منتقل ہونے کے بعد بھی۔ تقسیم وطن کے سلسلے میں وہ مذہب کے بجائے سیاست اور مفاد پرستی کو موردِ الزام قرار دیتے تھے۔ مذہب جو سیاست دانوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں کھلونا بن گیا تھا، اسی باعث فکر تونسوی مذہب بیزار ہو گئے تھے۔ فکر تونسوی کی نظر میں مذہب کے نام پر استحصال سب سے بڑا گناہ ہے۔

فکر تونسوی کی نظر میں انسانیت سب سے بڑا مذہب تھا اور وہ اسی پر گامزن رہے۔ وہ اپنے قول و فعل میں اسی کے قائل اور عامل تھے کہ انسانیت کے آفاقی اصولوں کو اختیار کرنا چاہیے اوران پر عمل پیر اہونا چاہیے۔ وہ انسان نوازی اور انسان دوستی کو انسانیت کا مقصد قرار دیتے تھے۔ 

فکر تونسوی کے یہاں مذہب بیزاری جو نظر آتی ہے تو اس میں الحاد نہیں ہے۔ وہ خدا کے وجود کے منکر نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں خود خدا سے مخاطب ہو کر خدا سے شکایت کی ہے۔ وہ دنیا کی بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں کا شکوہ خدا سے کرتے ہیں۔نثر میں بھی اور شاعری میں بھی انہوں نے خدا سے خطاب کر کے اپنی شکایات درج کرائی ہیں۔ 

فکر تونسوی ایک زود نویس قلمکار تھے، انہوں نے اردو میں خوب لکھا۔ ان کے کالم اردو کے مقبول کالموں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کے کالم ہلکے پھلکے اور سیدھے سادے ہوتے تھے لیکن ان میں طنز کی زبردست کاٹ اور حالات پر تیکھا وار ہوتا تھا۔ ان کا سیاسی طنز آج بھی قابلِ توجہ ہے بلکہ موجودہ حالات میں اس کی معنویت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان کے کالم پرتاپ، بیسویں صدی اور دیگر اخبارات و رسائل میں پابندی سے شائع ہوتے تھے۔

فکر تونسوی نے شاعری کے علاوہ، نثر میں مضامین اور کالم لکھے۔ ابتداء میں انہوں نے ڈرامے بھی لکھے، جو شاید محفوظ نہ رہ سکے۔ انہوں نے اپنے ڈراموں کا تذکرہ کیا ہے۔ 

فکر تونسوی نے ناول بھی لکھا ہے لیکن اس کا اسلوب بھی طنز و مزاح سے بھرپور ہے۔ ان کے ناول کا نام ”پروفیسر بدّھو“ ہے۔ اسی طرح”چوپٹ راجا“بھی گویا ایک مزاحیہ ناول ہے۔ 

فکر تونسوی کی تصانیف:

ہیولے (شعری مجموعہ) چھٹا دریا، پیاز کے چھلکے، چوپٹ راجا، فکریات، بدنام کتاب، فکرنامہ، آدھا آدمی، بات میں گھات، گھر میں چور، چھلکے ہی چھلکے، فکر بانی، میری بیوی، وارنٹ گرفتاری، ماڈرن الہ دین، ماؤزے تنگ، آخری کتاب، پروفیسر بدّھو، ساتواں شاستر، خدوخال، تیر نیم کش۔وغیرہ اہمیت کی حامل ہیں۔

اعزازات و انعامات:

فکر تونسوی کو اردو دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی ادبی خدمات کا بھرپور اعتراف کیا گیا۔ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔ 1969ء میں سویت لینڈ نہرو ایوارڈ پیش کیا گیا۔ ان کی تصنیفات پر ایوارڈ دئے گئے جن میں 1973ء میں اتر پردیش اردو اکادمی نے ”چوپٹ راجا“ پرایوارڈ دیا۔1977ء میں ”فکر نامہ“ پر اتر پردیش اردو اکادمی نے ایوارڈ دیا۔ 1980ء میں ”آخری کتاب“پر اتر پردیش اکادمی نے ایوارڈ پیش کیا۔ مغربی بنگال اردو اکیڈیمی نے 1985ء میں ”فکر بانی“ پر ایوارڈ عطا کیا۔ میرؔ اکیڈیمی نے 1983ء میں ایوارڈ پیش کیا۔ بھاشا وِبھاگ پنجاب نے 1987میں ایوارڈ عطا کیا۔فکر تونسوی کو 1987ء میں غالب ایوارڈ پیش کیا گیا۔ علاوہ ازیں دور درشن کے لیے ایک پرگرام منظور ہوا تھا جس کا نام تھا ”فکر کی باتیں“۔ دوردرشن پر اس کی غالباً تیرہ قسطیں منظور ہوئی تھیں جو بجائے خود ایک اعزاز تھا۔ عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اردو کے علمی و ادبی حلقوں میں فکر تونسوی کی بڑی عزت اور قدر و منزلت تھی۔ ان کی تحریروں کو آج بھی اہمیت سے پڑھا جاتا ہے، جو ان کی تحریروں کی شگفتگی، شیفتگی اور دلآویزی اور مقبولیت کا ایک ریکارڈ ہے۔ لوگ پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ 

فکر تونسوی کی کالم نگاری: 

اردو میں کالم نگاری کے سلسلے میں کئی اہم نام ملتے ہیں۔ اودھ پنچ بلکہ اس سے قبل بھی اس نوع کی روایت ملتی ہے۔ مولانامحمد علی جوہر کے ہمدرد، مولانا عبد المجید سالک کے انقلاب، مجید لاہوری کے نمکدان اور حاجی لق لق کا کالم کیلے کے چھلکے۔ پھر مولانا عبد الماجد دریاآبادی کے صدق، صدق جدید اور سچ کے کالموں، سچی باتوں کے علاوہ چراغ حسن حسرت کے کالم بھی اپنی جگہ ہیں۔ لیکن فکر تونسوی کی بات ہی اور ہے۔ فکر تونسوی کی کالم نگاری اردو میں اپنی نوعیت کی منفرد اور مخصوص ہے۔ اس کا اسلوب فکر ہی کی ایجاد تھا اور انہیں پر گویا ختم ہو گیا۔

کرشن چندر نے فکر تونسوی کے پیاز کے چھلکوں کے بارے میں لکھا ہے:  ”فکر کے مزاج اور طنز کی کئی پرتیں ہیں۔ اسی لیے شاید اس نے اپنے فکاہیہ کالم کا نام ''پیاز کے چھلکے'' رکھا ہے جو شمالی ہند کے ایک روزنامہ میں بڑی باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا ہے اور جس نے شمالی ہند کے لوگوں کی حس مزاح کی صحت اور تہذیب میں ایک بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پیاز کے پہلے دو ایک چھلکے زیادہ کڑوے نہیں ہوتے، یہی حال فکر کے مزاح کا بھی ہے۔ پھر جوں جوں پیاز کے چھلکے اترتے جاتے ہیں اس کی کڑواہٹ بڑھتی جاتی ہے۔ یہی حال فکر کے طنز کا بھی ہے۔ آخری گھٹّی بڑی کڑوی ہوتی ہے۔ اس قدر کہ آنکھ میں آنسو آ جاتے ہیں۔ اسی طرح جب آپ فکر کے مزاح کی آخری گھٹّی پر پہنچتے ہیں تو ذہن میں اس کی تلخی اپنی پوری تیزی اور تندی کے ساتھ چھا جاتی ہے۔ ''پیار کے چھلکے'' اسم بامسمی اسی کو کہتے ہیں۔“ 

یوسف ناظم نے ایک جگہ لکھا ہے: ”بعض لوگ پیاز کے چھلکے اور فکر تونسوی کو دو علیحدہ علیحدہ چیزیں سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ تنفس بھی دونوں میں۔ پیاز کے چھلکے بھی اتنے ہی جاندار ہیں جتنے کہ فکر تونسوی ہیں۔“

ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں: ”فکر صاحب کی پیاز دیوار چین کی طرح ہے.... فکر صاحب ہر روز صبح کو پیاز کے چھلکے اتارتے ہیں لیکن پیاز رات کو پھر اتنی ہی ہو جاتی ہے۔ ابھی تک پیاز نے ہار مانی ہے اور نہ فکر نے۔ اردو کے طنزیہ ادب کے لیے وہ منحوس ترین دن ہوگا جب ان دونوں میں سے کوئی اپنی شکست مان لے گا۔ بسیار نویسی اور زود نویسی کے باوجود طنز و مزاح کا اعلیٰ ترین معیار برقرار رکھنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ اور فکر صاحب برسوں سے یہ معجزہ دکھا رہے ہیں۔“

ڈاکٹر محمد حسن کا خیال ہے:”فکر تونسوی کے مزاحیہ مضامین عصری زندگی کی ناہمواریوں پر مبنی ہیں۔سوسائٹی کے داخلی میکانزم اور باہری رکھ رکھاؤ میں ایک عجیب قسم کا پُر لطف تضاد ہے۔ ''دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا''۔ اسی تضاد کو فکر مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں۔ جیسے بلی چوہے کو کھانے سے پہلے اس سے کھیلتی رہتی ہے۔ کچھ وہی انداز فکر کا ہے۔“

فکر تونسوی کی ''آخری کتاب'' کے مقدمہ میں، بعنوان: ''فکر تونسوی کون ہے؟'' نریندر لوتھر نے فکر تونسوی کی بلند اخلاقی اور خوش خلقی کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے تفصیل سے یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ کس طرح مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے اصرار پر 1974ء میں زندہ دلان حیدرآباد کی جانب سے منعقدہ کل ہند کانفرنس میں شرکت کی تھی جو ان کی سادگی اورخلوص کا مظہر تھی۔ 

فکر تونسوی کی شاعری:

فکر تونسوی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ فکر تونسوی کا صرف ایک شعری مجموعہ ”ہیولے“ منظر عام پر آیا جو ان کے ابتدائی دور کے کلام پر مشتمل ہے۔ وہ ترقی پسند نظریات کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں انہیں خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بنیادی طور پر فکر تونسوی سماجی مساوات کے حامی تھے۔ استحصال سے انہیں سخت نفرت تھی۔ مختلف حیثیتوں اور مختلف جہتوں سے ڈھائے جانے والے مظالم اور سماجی عدم مساوات کے وہ مخالف تھے۔ ان کا کلام بھی اسی کا آئینہ دار ہے۔

فکر تونسوی کی نظموں میں معبود، مہا گیانی، اپنی پوجا، کن، حوا کی بیٹی، سوئمبر، شکنتلا،عوام، مشورہ، تب اور اب، بغاوت، وہی پرانی ریت، وہاں سے یہاں تک، زنداں ہراس وغیرہ اہم ہیں۔ان کے کلام میں چند غزلیں بھی ملتی ہیں۔

فکر تونسوی کے کلام میں کہیں کہیں قنوطیت کا رنگ بھی نظر آتا ہے:

اور میں، مانوس غمگینی میں بل کھاتا ہوا

اور میں، ناکام سیّاروں سے شرماتا ہوا

وقت کے جادو بھرے جھولے میں لہراتا ہوا

آزمودہ کشمکش کے گیت دہراتا ہوا

دیکھتا ہوں خود کو غم خانے میں پھر آتا ہوا

اپنا غم خانہ جو رنگ اپنا بدلتا ہی نہیں 

اس گہن کے بیچ سے سورج نکلتا ہی نہیں 

فکر تونسوی اور طنز و مزاح: 

فکر تونسوی بنیادی طور پرایک طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کے یہاں طنز کے نشتر مزاح کے پیرائے میں پوشیدہ نہیں ہوتے بلکہ وہ طنز کے تیکھے وار راست کرتے ہیں، البتہ اس کی شدت کم کرنے کے لیے مزاح کا استعمال کرتے ہیں۔ 

اردو ادب میں طنز و مزاح کے سلسلے میں اہلِ انتقاد کا رویہ صاف اور واضح نہیں رہا ہے۔ طنز و مزاح کو دوسرے درجے کا ادب تصور کیا جاتا ہے۔ ادب ِ عالیہ میں طنز و مزاح کا شمار نہیں کیا جاتا۔ اس سلسلے میں فکر تونسوی کو اہلِ نقد کے اس رویہ سے شکایت نہیں تھی۔ وہ اس صورت حال کا زبردست ادراک رکھتے تھے۔انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ نقاد اپنی بالادستی کے لیے طنز و مزاح کو ادبِ عالیہ تسلیم کرنے میں پس و پیش کا شکار ہیں۔ انہوں نے اس کیفیت کا شعوری تجزیہ کرتے ہوئے طنز و مزاح کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں یوں لکھا ہے:

”طنز و مزاح کے حق میں فقط ایک کلمہ تحسین یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے ادبِ عالیہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ایک نقاد نے نہ جانے اپنی موزونی طبع کے کمپلیکس میں ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا: ''اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو میں رعایتاً اسے ادب مان لیتا ہوں مگر ادبِ عالیہ چیزے دیگر است۔''

”ادب اور ادب عالیہ دونوں کا المیہ یہ ہے کہ نقاد کو ضد ہے کہ اسے ادبی خضر مانا جائے۔ چناں چہ ادیبوں کے غول کے غول آب حیات کے دیوتا کا پیچھا کرنے میں مشغول ہو گئے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ دیوتا بیچارا خود آب حیات کا محتاج اور آب حیات سے محروم ہے۔“

”مگر طنز و مزاح نگار کا طربیہ یہ ہے کہ اس کی تخلیقات کا ناتہ براہ راست قاری سے بنا رہا۔ درمیان میں نقاد کو نکال دیا گیا۔ طنز قاری کو اور قاری طنز کو بھلی پرکار سمجھتے تھے کیوں کہ سمجھنے سمجھانے میں تجربیت نہیں تھی جس کے لیے نقاد کو تہہ در تہہ معنی دریافت کرنے کی زحمت دی جاتی۔ اور پھر قاری طنز کو ادب عالیہ گردان کر پڑھتا ہے یا نہیں؟۔ اس سوال کو وہ ایک پیچیدہ کوفت سمجھتا ہے اور نظر انداز کر دیتا ہے۔ کیوں کہ وہ طنز و مزاح سے اپنی مطلوبہ طمانیت اخذ کر لیتا ہے۔ اور یہی اس کا چشمہ آب حیات ہے۔ اور نقاد شاید قاری کی اسی بے نیازانہ طمانیت سے چڑا کر طنز کو ادب عالیہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔“

”یہ طنز و مزاح کی برتری ہے یا کمتری کہ ہر ملک میں، ہر زبان میں، ہر عہد میں معدودے چند طنز و مزاح نگار پیدائش کی زحمت فرماتے ہیں۔ دو چار صف اول کے طنز و مزاح نگار ابھرتے ہیں اور پھر جیسے پوری صدی ان پر گزر جاتی ہے۔۔۔۔۔“

”فکر بانی“سے فکر تونسوی کے چند منتخب جملے: 

”ایک سیاست دان اس وقت تک دانشور نہیں کہلا سکتا جب تک عوام اس سے متفق نہ ہو جائیں۔“

”رعایا اطاعت گزار ہو تو وہ شریف رہتی ہے لیکن حاکم کے فرمان پر قاتل تک بن جاتی ہے۔“

”سیاسی لیڈر کی فطرت میں نصف دروغ بیانی بھی ہوتی ہے مگر جسے وہ پوری سچائی کے طور پر منوا لیتا ہے۔“

”جمہوریت، سرمایہ داری کا وہ خوشنما ہتھیار ہے، جو مزدور کو کبھی سر نہیں ابھارنے دیتا۔“

”ایک شاعر اپنے شعر کو اس خیال سے اچھوتا سمجھتا ہے کہ مجھ سے پہلے ایسا شعر کسی نے نہیں کہا۔“

”آپ کے اندر تعصب اس وقت جی اٹھتا ہے جب آپ کا نصب العین مر جاتا ہے۔“

”پالیٹکس وہ اندھیری غار ہے جس کے اندر پالیٹیشین چلا جائے تو اس کے باطن کی روشنی کو بھی وہ غار نگل لیتی ہے۔“

”دوسروں کو حقارت سے خطاب کرنا، اس وقت تک آسان ہے جب تک وہ حقارت لوٹ کر آپ کا رخ نہیں کرتی۔“

DR. SYED VASIULLA BAKHTIARY

Department of Urdu,

Government College for Men (Autonomous),

KADAPA, A.P.,


دبستانِ شبلی کے گلِ سرسبد مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کی ادبی خدمات

 ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری

شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج برائے ذکور (خودمختار)، کڈپہ۔

دبستانِ شبلی کے گلِ سرسبد

 شاہ معین الدین احمد ندوی کی ادبی خدمات 

مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی‘ (ولادت: 1903ء - وفات: دسمبر 1974ء) ممتاز ندوی علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے 1924ء؁ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے سندِ فراغت حاصل کی۔انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کی خوابوں کی تعبیر دیکھنے کے لئے علامہ سید سلیمان ندوی کی ساتھ، بحیثیت رفیق دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ میں اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔علامہ شبلی نعمانی کی علمی وادبی ورثہ کے تحفظ،تسلسل اور علم و ادب کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ انہوں نے تاحیات ”دارالمصنفین“ کی رفاقت نبھائی۔علامہ شبلی نعمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی کے بعد دارالمصنفین کے وقار و اعتبار کو قائم رکھا اور اس علم و ادب کے سلسلۃ الذہب میں شامل ہو گئے جس میں علم و ادب، تحقیق و تنقیداور سیرت و تاریخ کی ایک کہکشاں آباد ہے۔

دارالمصنفین میں ان کی خدمات تقریباً نصف صدی پر محیط ایک طویل مدت سے عبارت ہیں جو صرف ایک ادارہ میں علمی و ادبی خدمات کے لیے مختص کردی گئیں۔مولانا عبد السلام قدوائی ندوی نے ان کے پورے پچاس سالہ بے لوث اور مخلصانہ خدمات کے بارے میں لکھتے ہیں: ”وہ پورے پچاس سال استاذ اور مربی کے آستانہ پر جمے رہے۔ نہ مشکلات اور پریشانیاں کبھی ان کو ہراساں کر سکیں اور نہ راحت و آرام اور نہ عزت و وقار کے دلکش مواقع نے ان کے پائے استقلال میں لغزش پیدا کی۔ وہ حسرت اور تنگ دستی اور مشکلات و مصائب سے بے خوف اور ترغیب و تحریص سے بے نیاز ہو کر استاذ کی ہدایت کی تعمیل میں لگے رہے اور شبلی و سلیمان کے لگائے ہوئے پودے کو اپنے خون جگر سے سینچتے رہے تاآنکہ راہِ وفا کے مسافر کو موت نے ابد کی خوابگاہ میں پہنچا دیا۔“ (رسالہ تعمیر حیات، لکھنؤ شاہ معین الدین احمد ندوی نمبر، مارچ-اپریل، 1975 

درجِ ذیل ربط پر ملاحظہ کیجیے



دبستانِ شبلی کے گلِ سرسبد - شاہ معین الدین احمد ندوی
Dabistan-e-Shibli_Ke_Gule_Sarsabd
Shah_Moinuddin_Ahmed_Nadwi_Ki_Adabi_Khidmaat

My research is available on @Academia:
https://www.academia.edu/104848758/Vasi_Bakhtiary_Publication_Qaumi_Zaban_Monthly_UGC_CARE_Listed_May_2023_06_05_2023_18_33





منگل، 20 ستمبر، 2022

اردو ‏اکیڈمی ‏آندھرا ‏پردیش ‏کے ‏ڈائریکٹر ‏سکریٹری ‏کا ‏تقرر ‏

ڈاکٹر این. ایوب حسین، لیکچرار، گورنمنٹ ڈائیٹ، کرنول کو آندھرا پردیش اسٹیٹ اردو اکیڈمی کا ڈائریکٹر/ سکریٹری مقرر کیا گیا ہے۔ موصوف کی خدمت میں پُر خلوص مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
#اردو_اکیڈمی #آندھراپردیش
#اردو_اکیڈمی_آندھرا_پردیش

منگل، 15 فروری، 2022

پروفیسر فضل رحمان، ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی، کرنول کے وائس چانسلر مقرر۔

پروفیسر فضل رحمان، ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی، کرنول کے وائس چانسلر مقرر کئے گئے


پروفیسر فضل رحمان، ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی، کرنول کے وائس چانسلر مقرر کئے گئے

پروفیسر فضل رحمان

Prof. Fazul Rahaman, Vice-Chancellor, Dr. Abdul Haq Urdu University, Kurnool

پروفیسر فضل رحمان، ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی، کرنول کے وائس چانسلر مقرر۔

آج بتاریخ 15/ فروری، 2022ء حکومتِ آندھرا پردیش کی جانب سے جاری کردہ حکمنامہ (جی او، ایم ایس: 7، مؤرخہ 15/ فروری 2020ء) کے ذریعے آندھرا پردیش کے گورنر بسوابھوشن ہری چندن نے پروفیسر فضل رحمان، ڈائریکٹر، یو جی سی ہیومن ریورس ڈیولپمنٹ سینٹر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کو ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی، کرنول کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی میعاد چار سال ہوگی۔



موصوف کے لیے مبارکباد اور نیک خواہشات

 

اتوار، 23 مئی، 2021

گنج شائگاں - ڈاکٹر راہی فدائی - تعارف کتاب - وصی بختیاری ‏

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.
خیریت حاصل و مطلوب۔

پانچ سال قبل 23 مئی 2016 کو کڈپہ میں ادبی تنظیم "اردو والے" کی جانب سے حضرت مولانا ڈاکٹر راہی فدائی صاحب قبلہ کی مرتب کردہ کتاب، کلیاتِ قصائد "گنجِ شائگاں" کی رسمِ اجراء منعقد ہوئی تھی۔ پروگرام کے منتظم پروفیسر قاسم علی خان صاحب تھے اور صدرِ اجلاس پروفیسر ستار ساحر صاحب تھے۔ اس رسمِ اجراء کی تقریب میں مجھ عاجز نے کتاب کا مختصر تعارف پیش کیا تھا۔ اس ویڈیو میں اسی تعارفی تقریر کو پیش کیا گیا ہے۔
وصــی بــخــتـــیـــاری عمری

کلیات قصائد گنجِ شائگاں کے مقدمہ کے آخر میں، مرتب کتاب مولانا ڈاکٹر راہی فدائی صاحب نے فلک شکوہ محمد علی مہکری آصف خانہ زاد (گورنر عہد ٹیپو سلطان شہید) کے شاعرانہ کمالات اور اس عہد کی دکنی اردو کا تعارف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
"حاصل کلام یہ کہ حضرت خانہ زاد نہ صرف عالم و فاضل اور صاحب ورع واہل نسبت تھے بلکہ ایک بہترین شاعر، قصیدہ نگار اور بلند فکر سخنور کی حیثیت سے بھی آپ کا مقام ارفع و اعلی تھا۔ آپ کے کلام کے محاسن کماحقہ دریافت کرنے کے لیے گنج شانگاں کا مطالعه مد و معاون ثابت ہوگا۔ آپ نے اپنے منصب گورنری کی سرکاری مصروفیات کے باوجود اور حکومت خداداد کی اہم ترین ذمہ داریوں کے باوصف شعر و سخن اور فکر و فن میں بھی جولانیاں دکھائیں۔ آپ کا کمال اور آپ کی ہنرمندی آپ کے اشعار سے نمایاں ہے۔ آپ نے اس وقت جب کہ اردو محاوراتی زبان اور دکنی مروجہ زبان کا سنگم ہورہا تھا، ایسی شاعری کی ہے جس سے دونوں طبقوں کو شاید ہی کسی طرح کی شکایت کا موقع ملے۔ علاوہ ازیں آپ نے اس وقت تک کی مروجہ قصیدہ نگاری کی راہ سے خودکوکسی قدر ہٹا کر اپنی ایک مخصوص راہ نکالنے کی سعی کی ہے۔ آپ نے کہیں بہت زیادہ بلند بانگ دعوے نہیں کئے ہیں۔ کہیں کہیں شاعرانہ تعلی کی جھلک نظر آتی ہے مگر وہ حدیث نعمت کے طور پر ہے فخر و مباحات کے طریقے پر نہیں۔ راقم کی یہ خواہش ہے کہ اس پر ہمارے اہل علم و فضل اور نقادان سخن کھلے ذہن و دل سے سوچیں اور اپنی بے لاگ رائے قائم کریں۔ (گنجِ شائگاں، صفحہ 36 اور 37)

ڈاکٹر راہی فدائی صاحب کی مرتب کردہ کتاب کلیاتِ قصائد "گنجِ شائگاں" دکنی کلیاتِ فلک شکوہ محمد علی مہکری آصف خانہ زاد — 23 مئی 2016 کو کڈپہ میں "اردو والے" کی جانب سے منعقدہ رسمِ اجراء میں ڈاکٹر وصی بختیاری عمری کی تعارفی تقریر
*****
#ڈاکٹر_راہی_فدائی 
#راہی_فدائی 
#وصی_بختیاری
#تعارف_کتاب #کتاب_شناسی #دکنی_ادب #دکنیات #کلیات #رسمِ_اجراء