صفحات

بدھ، 25 اکتوبر، 2017

مانو کا سیمینار ’’عہدِ آصف جاہی کی ثقافتی اور ادبی روایات اور عصری معنویت‘‘


مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ہارون خان شیروانی مرکز برائے مطالعاتِ دکن کے زیر اہتمام دو روزہ قومی سیمینار بعنوان: ’’عہدِ آصف جاہی کی ثقافتی اور ادبی روایات اور عصری معنویت‘‘ 10 اور 11 اکتوبر 2017 کو منعقد ہوا تھا۔ 
اس سیمینار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر اسلم پرویزصاحب، وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد نے فرمائی تھی۔ 
مہمانانِ خصوصی/ اعزازی میں پروفیسر جی. گوپال ریڈی (ممبر، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن)، پروفیسر بی. شیخ علی (سابق وائس چانسلر، منگلور و گوا یونیورسٹی)، پروفیسر مظفر علی شہہ میری (وائس چانسلر، ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی، کرنول)، علامہ اعجاز فرخ (ماہرِ دکنیات، حیدرآباد) شامل تھے۔ اس اجلاس میں پروفیسر آذر می دخت صفوی (ڈائرکٹر، پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) نے کلیدی خطبہ پیش کیا اور حضرت علامہ اعجاز فرخ صاحب نے خصوصی خطاب فرمایا۔ 
سیمینار کے ڈائرکٹر پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈائرکٹر ہارون خان شیروانی مرکز برائے مطالعاتِ دکن، مانو نے خطبہ استقابالیہ پیش کیا اور سیمینار کے کوآرڈی نیٹر پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، جوائنٹ ڈائرکٹر مرکز برائے مطالعاتِ دکن نے افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔
افتتاحی اجلاس کے ویڈیو کو آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے انسٹرکشنل میڈیا سینٹر نے یو ٹیوب پر پیش کیا ہے۔ شکریہ 
کے ساتھ اشتراک کر رہا ہوں۔
 اس ویڈیو میں حضرت علامہ اعجاز فرخ صاحب کی تقریر ایک گھنٹہ چھ منٹ کے بعد شروع ہوتی ہے: تقریباً ڈھائی گھنٹے سے زیادہ وقت پر ویڈیو محیط ہے- علامہ صاحب قبلہ کو 1.06.50 پر ملاحظہ فرمائیں؛


منگل، 24 اکتوبر، 2017


علامہ اعجاز فرخ صاحب کا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے  لکھنؤ کیمپس میں توسیعی خطبہ 

لکھنؤ 24،اکتوبر 2017۔

لکھنؤ کی تہذیبی خوب صورتی پوری دنیا میں ممتاز ہے ۔علامہ اعجاز فرخ 


مانو لکھنؤ کیمپس میں علامہ اعجاز فرخ کا توسیعی خطبہ ،کہا کہ میں یہاں مستقبل

کے 
ہندستان کو دیکھنے آیا ہوں 

ڈاکٹر عمیر منظر صاحب کی رپورٹ 

نادر شاہ کے حملے کے بعد دلی اجڑ گئی تھی لیکن لکھنؤ آباد ہونے لگا تھا۔یہاں کی تہذیبی خوب صورتی پوری د نیا میں ممتاز ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ وہ لکھنؤ آج مجھے نظر نہیں آرہا ہے مگر میں نے اس کے باطن میں جھاکنے کی کوشش کی ہے۔ رومی دروازہ ، بڑا امام باڑہ اور اس طرز کی جو عمارتیں ہیں ان کو دیکھئے اور ان کے نقش و نگار کو دیکھئے۔ صرف انسان ہی کہانی نہیں سناتے بلکہ دیواریں بھی کہانی سناتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار ممتاز مورخ اور خطیب علامہ اعجاز فرخ نے یہاں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں ’اودھ کی ثقافت اور ادب کے موضوع پر توسیعی خطبہ کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ میں لکھنؤ کیمپس میں مستقبل کے ہندوستان کو دیکھنے آیا ہوں ۔ میں طلبہ میں اپنا ماضی اور مستقبل دیکھتا ہوں اور یہی کشش مجھے یہاں کھینچ کر لائی ہے۔ 
کیمپس کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدوس نے خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر عشرت ناہید نے نظامت اور تعارف کا فریضہ انجام دیا۔ کیمپس کے طالب علم محمود الحسن نے قرآن پاک کی تلاوت کی۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے خیر مقدمی کلمات میں آج کے دن کو ایک تاریخی موقع قرار دیا اور کہا کہ علامہ کی آمد اور خطاب سے ہمارے طلبہ کو بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملے گا۔ انہوں یہ بھی کہا کہ تاریخ کے ایک سنہرے دور کو آج ہم علامہ اعجاز فرخ کے الفاظ میں دیکھنے کی کوشش کریں گے ۔
علامہ اعجاز فرخ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یوں تو حیدر آباد اور دلی بھی ایک تہذیبی شہر ہیں مگر نزاکت اور کیفیت کی شان جو لکھنؤ سے عبارت ہے وہ اور کہیں نہیں۔ انہوں نے اس موقع سے لکھنؤ کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اس انداز سے پیش کیا کہ سننے والوں کے سامنے وہ چیزیں ایک متحرک پیکر کی صورت میں دکھائی دینے لگیں۔ انہوں نے اس بات کا خاص طورپر ذکر کیا کہ لکھنؤ نے بہت سی تہذیبوں کو پروان چڑھایا۔اس تناظر میں شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان بالخصوص لکھنؤ اپنی تہذیبی خوبصورتی کی وجہ سے ہی پوری دنیا میں ممتاز ہے۔
علامہ اعجاز فر خ نے کہا کہ لکھنؤ میں پاندان کو تہذیبی علامت حاصل تھی بیگمات کے خرچ کا اندازہ ان کے پاندان سے کیاجاتا تھا۔یہاں کبھی سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے تھے اور سائل بھی ایسے تھے جو ہر دروازے پر صدا نہیں لگاتے تھے۔ یہاں کے لوگ غریبوں اور کمزور لوگوں کی مدد اور تعاون کر کے اپنے ہاتھ اور پاؤں کی زکاۃ نکالا کرتے تھے انہوں نے کہا کہ اس وقت کا لکھنؤ آج کے لکھنؤ کی طرح روشنی کا جنگل نہیں تھا مگر پھر بھی چہرے صاف دکھائی دے رہے تھے یعنی روشنی انسان کے اندر ہوتی ہے۔ انہوں نے چوک اور حضرت گنج کا ذکر کرتے ہوئے لکھنؤ کی شادیوں کی مختلف رسموں کا ذکر کیا ۔
علامہ اعجاز فرخ نے پان کھانے ، دلہن کی حنا بندی اورشادی کی دیگر رسوم کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے بانکوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لکھنؤ میں کباب کے بغیر کھانے کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ 30 ، 32 ورق کے پراٹھے ہوا کرتے تھے ۔ اس شہر میں پہلے بریانی نہیں تھی بلکہ پلاؤ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ان تمام تر تہذیبی اور ثقافتی رویوں میں لکھنؤ کی سب سے بڑی عظمت یہ تھی کہ اس نے کبھی کسی کو برا نہیں کہا۔اب آج ان چیزوں کو میں تلاش کرتا ہوں تو کوئی چیز مجھے نظر نہیں آتی۔ علامہ اعجاز فرخ نے گومتی ندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسی زمانے میں اس ندی کی لہروں میں موتیوں کی آب و تاب تھی مگر اب دیکھتا ہوں تو لگتاہے کہ یہ اپنے گناہوں کی چادر اوڑھ کر سیاہ پوش ہو گئی ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ اس شہر نے میرؔ کی پروش ہی نہیں کی ہے بلکہ ایک پورے ادبی رویے کو فروغ اور استحکام عطا کیا ہے۔انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ ملک پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد تاریخ کو بیان کرنے میں روای مخلص نہیں رہے اور اسی وجہ سے ایسی بہت سی باتیں ہماری تہذیب کا حصہ بنا دی گئیں جن کا کہ وجود ہی نہیں تھا ۔

پیر، 9 اکتوبر، 2017

Govt. Degree College, Rayachoty

گورنمنٹ ڈگری کالج، رائے چوٹی

گورنمنٹ ڈگری کالج رائے چوٹی، ضلع کڈپہ کا لوگو

GOVT. DEGREE COLLEGE, RAYACHOTY LOGO

GOVT. DEGREE COLLEGE, RAYACHOTY LOGO

GDC RCT LOGO

LOGO OF Govt. Degree College, Rayachoty, Rayachoti
LOGO of Govt. Degree College, Ryachoty