مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری
فطرتِ انسانی کے دواعی میں سے ایک شدید داعیہ ‘ اپنی میراث کا تحفظ اور اس کو مستقبل تک منتقل کرنا بھی ہے۔’ میراث‘کے عموم میں ہماری تہذیب وروایات ، احساسات وتاثرات، شخصیات اور کردار سبھی شامل ہیں، اور اسی مقتضائے فطرت کے باعث ہمارے سوانحی ادب ، تاریخ و تذکرہ نویسی کی آبیاری ہوتی ہے اور ہمارے ادب کی صنف مرقع نگاری یا خاکہ نگاری بھی اسی ذوق کی رہینِ منّت ہے۔
مرقعے ، دراصل ہمارے تجربات و مشاہدات اور تاثرات و احساسات کا مظہر ہوتے ہیں، ہمارے متعلقین ‘ احباب اور شخصیات کے مرقعے گویا تاریخ کا حصہ اور مستقبل کی امانت ہوتے ہیں۔
اردو ادب کی جدید نثری اصناف میں قلمی تصویر کشی اور مرقع نگاری کو ایک صنف کی حیثیت حاصل ہے۔ زمانۂ قدیم ہی سے سوانح نگاروں اور تذکرہ نویسوں کے ہاں اس کے نقوش ملتے ہیں۔ جیسے :’’آبِ حیات‘‘ ( محمد حسین آزاد) ’’سیررجال ونسواں‘‘( عبدالحلیم شررؔ ) ’’یادِایام‘‘ (عبدالرزاق کانپوری) ’’وضعدارانِ لکھنؤ‘‘ ( مرزا ہادی رسواؔ )وغیرہ ۔ لیکن مستقل صنف کی حیثیت سے مرقع نگاری میں اولیت مرزا فرحت اللہ بیگ کی تسلیم کی گئی ہے ، جنہوں نے ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی ۔کچھ ان کی ‘کچھ میری زبانی‘‘ لکھا۔
اردو میں بہت سے لوگوں نے مرقعے لکھے ہیں ‘ جو لکھنے والوں کے ذوق و مزاج اور افتادِ طبع اور اسلوبِ نگارش کے آئینہ دار ہیں۔ اردو کے چند مشاہیر مرقع نگاروں اور ان کی کتابوں کے نام یوں ہیں: ’’ گنج ہائے گراں مایہ‘‘ ،’’ ہم نفسانِ رفتہ ‘‘( پروفیسر رشید احمد صدیقی )’’چند ادبی شخصیتیں‘‘، ’’گنجینۂ گوہر‘‘( شاہد احمد دہلوی )’’ پسِ پردہ‘‘،’’ قلمی چہرے‘‘( خواجہ حسن نظامی)’’یارانِ کہن ‘‘ (عبدالمجید سالکؔ ) ’’چند ہم عصر‘‘ (مولوی عبد الحق ) ’’دہلی کی چند عجیب ہستیاں‘‘ ( اشرف صبوحی) ’’کیا خوب آدمی تھا‘‘( سید عابد حسین) ’’جانے والوں کی یاد آتی ہے‘‘(صالحہ عابدحسین) ’’یادِ یارِ مہربان‘‘ (پروفیسر خواجہ احمد فاروقی )’’دید و دریافت ‘‘(پروفیسر نثار احمد فاروقی ) ’’آدمی نامہ‘‘، ’’سوہے وہ بھی آدمی‘‘ ،’’ آپ کی تعریف ‘‘، ’’چہرہ در چہرہ‘‘ ،’’ ہوئے ہم دوست جس کے‘‘( مجتبیٰ حسین) ’’بزمِ خوش نفساں‘‘ ( جمیلؔ جالبی)’’معاصرین ‘‘، ’’نثری مرثیئے / وفیاتِ ماجدی‘‘ ( مولانا عبدالماجد دریاآبادی ) ’’قلمی تصویریں /ماہنامہ بیسویں صدی‘‘ (خوشترؔ گرامی )’’ وہ جنہیں کوئی نہیں جانتا‘‘ ( علامہ انور ؔ صابری ) ’’چہرہ چہرہ داستان‘‘ (پروفیسر سلیمان اطہر جاویدؔ ) ’’شخصیات ‘‘ (مولانا ابوالاعلیٰ مودودی) ’’یادِ رفتگاں‘‘/ماہنامہ معارف (علامہ سید سلیمان ندوی) ’’یادِ رفتگاں‘‘/ماہنامہ فاران( مولانا ماہرؔ القادری )’’بزمِ رفتگاں‘‘ (دو جلدیں) (سید صباح الدین عبدالرحمن )’’نقوشِ رفتگاں‘‘( مولانا جسٹس تقی عثمانی)’’پرانے چراغ ‘‘( تین جلدیں) ( حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ) ’’دید و شنید‘‘ ( مولانا رئیس احمد جعفری ندوی )’’بزمِ ارجمنداں‘‘،’’ نقوشِ عظمتِ رفتہ ‘‘، ’’کاروانِ سلف‘‘ (محمد اسحاق بھٹی)...وغیرہ ۔
’’جنوبی ہند میں اردو مرقع نگاری ‘‘ پرایس.وی.یونیورسٹی کی جانب سے منعقدہ اِس دوروزہ نیشنل اردو سیمینار میں‘ راقم الحروف ’’مولانا محمد ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری ‘‘ کے موضوع پر چند طالب علمانہ معروضات پیش کرنے کی جسارت کررہاہے۔
قبل اس کے کہ ساحلی آندھراپردیش کے ممتا زصاحبِ قلم کی مرقع نگاری کا تجزیہ کیا جائے ‘ جنہوں نے تقریباً ڈیڑھ سو (150) خاکے /مرقعے لکھے ہیں ، یہ مناسب ہے کہ ان کے مختصر سوانحی حالات بھی ذکر کئے جائیں۔
مولانا محمد ثناء اللہ عمری ‘ ساحلی آندھراپردیش کے ایک قصبہ ’کٹانچور‘ تحصیل گڈیواڑھ ‘ (ضلع کرشنا) میں ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ دارالسّلام ‘ عمرآباد ‘تمل ناڈو کا رخ کیا، اور فضیلت کی سند حاصل کی۔حیدرآباد دکن میں دائرۃ المعارف العثمانیہ ( جامعہ عثمانیہ) میں ملازمت پر مامور ہوگئے۔ اس دوران شبینہ کالج سے بی .اے اور جامعہ عثمانیہ سے انگریزی ادب میں ایم.اے کی ڈگری حاصل کی۔
مچھلی پٹنم کے ہندو کالج میں لکچرراور صدر شعبۂ انگریزی ہوئے۔ ملازمت کے دوران رخصت پر ایک طویل عرصہ تک جامعہ دارالسّلام ‘ عمرآباد کے شعبۂ تحقیقاتِ اسلامی کے ڈائرکٹر بھی رہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری ۱۹۹۸ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد وطن ہی میں مقیم ہیں۔تحقیقی و تصنیفی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ مولانا ثناء اللہ عمری بسیار نویس ہیں، بقول مولاناحفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی:
’’ قلم کی دنیا میں قدم رکھے پورے چالیس سال کی عمر ہوچکی ہے۔ انگلیاں چاہے ٹیڑھی اور بوڑھی ہوگئی ہوں ‘ مگر ان کا اشہبِ قلم ’ابھی تو میں جوان ہوں ‘ گنگناتے ہوئے سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ صفحۂ قرطاس پر اس کی روانی اور جولانی ( چشمِ بد دور) دیدنی اور باعثِ حیرانی ہے۔ گوناگوں عناوین پر مضامین کے انبار لگاتے جارہے ہیں‘ اسلامیات اور ادبیات پر بھی، معاشرتی اور اصلاحی موضوعات پربھی.....‘‘
( ص:۸ مجھے یاد آنے والے)
مولانا ثناء اللہ عمری ‘ کے مضامین ومقالات ‘ ہند وپاک کے اخبارات ومجلات اور رسائل وجرائد میں مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔آپ کی مطبوعہ تصانیف یوں ہیں: ’’قرآن اور دعا‘‘ ، ’’ امثال القرآن‘‘، ’’ صدائے منبر ومحراب‘‘( دو جلدیں) ’’ تذکرۂ واجدی‘‘ ، ’’ علامہ سید رشید رضا ‘‘ (ترجمہ ) ’’ بات ایک مسیحانفس کی‘‘ ، ’’ تذکرۂ اسماعیل‘‘ ، ’’ مجھے یاد آنے والے‘‘ ،’’ نذرانۂ اشک‘‘ وغیرہ۔مؤخرالذکر دونوں مرقعوں کے مجموعے ہیں۔
مرقعوں کا مجموعہ ’’ نذرانۂ اشک ‘‘ ۱۹۹۷ء کو لاہور میں طبع ہوا اور ضیاء اللہ کھوکھر کے ادارہ ندوۃ المحدیثین‘ گوجرانوالہ ( پاکستان) سے شائع ہوا۔ اس میں پچاس مرقعے شامل کئے گئے ہیں۔اس میں شامل مرقعے ، گیارہ ذیلی ابواب میں تقسیم کئے گئے ہیں، جو بالترتیب یوں ہیں: ’’اہلِ خاندان، اہلِ قرابت، اساتذہ، اساطینِ ملت، بزگانِ دین، مردانِ قلندر، اللہ والے لوگ، چند علماء، سینیئر معاصرین، چند محسنین، جواں مرگ‘‘ ۔
مرقع نگار نے اعتراف کیا ہے کہ چار پانچ ایسے حضرات کے مرقعے شاملِ کتاب ہیں‘ جن کی بابت مرقع نگار کی خامہ فرسائی کی بنیاد دید پر نہیں شنید پر ہے ، اور مرقع نگار کو شیخ سعدی مرحوم کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ ع شنیدہ کَے بود مانندِ دیدہ۔
مولانا ثناء اللہ عمری لکھتے ہیں:
’’ ممکن ہے ، دید و شنید کے اس فرق سے ان دو قسموں کے مضامین میں بھی فرق پید اہوگیا ہو۔مؤخرالذکر قسم کی تحریریں یہاں صرف چھ ہیں، یعنی ابوالکلام،مولانا ابوالوفاء، مولانا ابوتمیم، مولانا بشیر احمد، منشی عبدالرحیم، پیش امام عبدالغنی۔ ان مضامین کی تحریر کا مقصد ذوقِ تذکرہ نویسی کی تسکین کا سامان کرنا ہے۔ ع ز شوقِ بندگی پروردگارے کردہ ام پیدا ۔
ان کی طبع واشاعت سے مقصود اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ ملک کے غیر معروف مقامات پر تمام تر خاک ہی نہیں چنگاریاں بھی رہی ہیں۔بقول اقبالؔ : ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!
’’... اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنوں ‘ پرایوں‘ کسی کے ذکر میں اعتدال کا رشتہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ یہ ذکرِ خیر ہے ،بڑوں کا، چھوٹوں کا ، برابر والوں کا، جن میں سے بہتوں کے دیئے ہوئے داغ ابھی تازہ اور ہرے
ہیں۔ .....‘‘(نذرانۂ اشک،ص:۹)
مولانا ثناء اللہ عمری کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ ’’ مجھے یادآنے والے‘‘ ہے ، جوحکیم اجمل خاں کی نگرانی میں دہلی میں طبع ہوا اور خود مرقع نگار نے شائع کیا۔ اس مجموعہ میں تین درجن (36) مرقعے شامل کئے گئے ہیں، جوبالترتیب اِن ذیلی عناوین کے تحت پیش کئے گئے ہیں۔’’ اساتذۂ کرام، اداروں کے سربراہ، رہنمایانِ فکر، علمائے کرام، اہلِ قلم حضرات، خدامِ دین، بزرگانِ دین، قرابت دار، دوست احباب۔‘‘
مولانا ثناء اللہ عمری نے ’مقدمہ‘میں وضاحت کی ہے کہ:
’’ ۳۵۔۳۶ حضرات میں سے بمشکل آٹھ دس ہی ایسے نکلیں گے ‘ جو علمی حلقوں میں متعارف ہیں، بقیہ افراد عالم و فاضل اور خادمِ دین ہونے کے باوجود گمنام تھے اور گمنام ہیں، ایسے لوگوں کے تعارف ہی کے لئے میں نے قلم اٹھایا ہے۔ اور یہ بتانے کی حقیر سی سعی کی ہے کہ عام طور پر ملک کے جن گوشوں کی بابت پڑھے لکھے لوگوں کو بھی سان وگمان نہیں ‘ وہاں بھی دینِ حق کے خادم ہوئے ہیں، اور یہ مقامات زبانِ حال سے گویا ہیں: ع
’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی‘۔
مولانا حافظؔ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی ’’ مجھے یاد آنے والے ‘‘ میں شامل مرقعوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مولانا ثناء اللہ صاحب قلم کی امانت اوراس کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے ہیں، واقعہ اور مو ضوع کے تمام جزئیات پر مکمل تحقیق کے بعد ہی قلم اٹھاتے ہیں ،اشخاص پر لکھیں ھے تو شخصیت کے تمام پہلووں کا جائزہ پیشِ نظر ہوگا ، غلو اور مبالغہ تو دور کی بات ، سنی سنائی باتوں اور ظن وقیاس کو بھی جھٹک دیتے ہیں ، مرحومین پر لکھنے والوں کے بارے میں سعادت حسن منٹو نے طنز کیا تھا کہ وہ ’’ مرنے والوں کو لانڈری بھیج دیتے ہیں ، جب دھل دھلا کر آتے ہیں تو انھیں رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانک دیتے ہیں ‘‘، منٹو کے طنز کا رخ اور لوگوں کی طرف تو ہو سکتاہے ،کیونکہ زمانے کا عام چلن یہی ہے، لیکن ہمارے دوست اس عام روش سے بہت پرے ہٹ کر چلتے ہیں ، جسے جیسا پایا ویسا ہی پیش کردیا ، لوگوں کو اونچا کرنے کی کوشش کی اور نہ قد آور شخصیتوں کے قد وقامت میں کچھ کمی کی ۔
زیر نظر کتاب میں آپ کی مختلف مراتب کے لو گوں سے ملاقات کرائی جائے گی ،کچھ مشہور نامی گرامی اساطین ہوں گے ، بین الاقوامی اور ملک گیر شہرت کے مالک ہوں گے ، ملی اور ملکی خدمات پر جان نثار کرنے والے ہوں گے ، علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں خون پسینہ ایک کرنے والے ہوں گے ، منبر و محراب کے شہسوار بھی ہوں گے ، گمنام درسگاہوں کے خاموش خدمت گزار ہوں گے ، اور ان سب کے جلو میں کچھ بے نام و نشان حقیر و فقیر بھی ہوں گے جو دنیا کے لئے آفتابِ عالم نہ سہی ، مگر اپنوں کے لئے چراغِ خانہ ، قیمتی متاع ،اور ناقابل تلافی سرمایہء حیات رہے ہوں گے ، مجموعے میں ان کے تذکرے پر آپ حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ
تنکے بھی چن لئے کہ شریکِ بہار تھے۔ ‘‘ (مجھے یاد آنے والے ،ص: ۱۰)
مولانا ثناء اللہ عمری کو اللہ تعالیٰ نے بلاکا حافظہ عطا کیا ہے ، جب کسی کی مرقع کشی کرتے ہیں تو گویا اپنے ذہن کے دریچہ کو کھول دیتے ہیں، جہاں یادداشت کا ایک ٹھاٹیں مارتا سمندر ‘ ایک بحرِ ناپیدا کنار موجود ہوتا ہے، اور جب آپ اس بحرِ موّاج میں غرق ہوجاتے ہیں، تو صفحۂ قرطاس پر واقعات اور متعلقات کی ایک دنیا مرقع کی صورت جگمگانے لگتی ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری صاحب کے مرقعوں میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ آپ اپنے مرقعوں میں‘ ایک دوست ، ایک عزیز، ایک عقیدت مند، ایک نیازمند،ایک شاگرد، ایک طالب علم، ایک عالمِ دین کی حیثیتوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔
اس بات کی صراحت ‘ تحصیلِ حاصل اور وضاحت بے جا نہ ہوگی کہ مرقع نگاری کے عام رویہ اور عام روش کے تحت ‘ مولانا ثناء اللہ عمری کے مرقعوں میں بھی مرقع نگار کی شخصیت جھلکتی ہے۔ آپ صاحبِ مرقع کی شخصیت کے گرد اپنے روابط و تعلقات ‘ حالات و واقعات اور تجربات ومشاہدات کے تانے بانے بنتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کے مرقعوں میں تعلقات کی دھوپ چھاؤں بھی ہے، خط و کتابت کے حوالے بھی ہیں، شخصیات کو پرکھنے کا ایک منفرد انداز بھی ہے۔ گویا دید و شنید کی ایک دنیا آباد ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کے ضمن میں ‘ آندھراپردیش، تمل ناڈو اور کرناٹک کے مختلف مقامات کی سیر ہوجاتی ہے۔ مچھلی بندر، ایلور، کٹانچور، وجئے واڑھ، الولپوڈی، پڈنہ،
رائے درگ، رائے چوٹی، رائے ورم، محل، عمرآباد، پیارم پیٹ، وانمباڑی، آمبور، ویلور، آرکاٹ، مدراس، بلہاری، سرسی، شولاپور، وغیرہ مقامات کا ذکر کہیں مفصل ‘ کہیں مختصر ، کہیں ضمناً، آپ کے مرقعوں میں ہوتا ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری میں آپ کی مادرِ علمی ‘ ’جامعہ دارالسّلام‘ عمرآباد‘( تمل ناڈو) کا ذکر بہت آتا ہے۔یہ صورتِ حال پروفیسر رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں ’’ علی گڑھ‘‘ سے مشابہ ہے کہ ع ’ جہاں جائیں وہاں تیرا فسانہ چھیڑدیتے ہیں‘.....
مولانا ثناء اللہ عمری ‘ مسلکاً اہلِ حدیث ہیں، دیگر مسالک کے لئے روادار، بزرگوں کے عقیدت مند، تصوفِ صحیح کے قائل، لیکن مسلکی شیفتگی اور شعور کے بھی حامل ہیں،اور شایداسی لئے بالعموم آپ کے مرقعے علمائے اہلِ حدیث پر ہیںیا ضمناً مرقعوں میں جماعتِ اہلِ حدیث کا نام ضرور آجاتا ہے،آپ کے ہاں تعصب اور عصبیت نام کو بھی نہیں ہیں، کہ آپ کا مسلک ’راہِ اعتدال‘ ہے۔
مولانا ثناء اللہ عمری کا اسلوبِ نگارش اپنے اند رایک طرح کی جاذبیت اور دلکشی رکھتا ہے، تصنع سے پاک ، تکلف برطرف ، سادہ اسلوبِ تحریرآپ کا خاصّہ ہے۔ نثر میں بر محل اشعار یا مصرعے لطف دے جاتے ہیں۔ اردو کے علاوہ فارسی اشعار بھی آپ کی تحریر میں بکثرت ہوتے ہیں۔ آپ کی مرقع نگاری کا اسلوبِ نگارش اور رنگ ڈھنگ ‘ مولانا عبدالماجد دریاآبادی کی یاد دلاتا ہے۔ فی الواقع ، ’سچ‘ ’صدق‘ اور ’صدقِ جدید ‘ کے ’’دریاآبادی اسلوب ‘‘کے ایک زخم خوردۂ عقیدت ‘ مولانا ثناء اللہ عمری بھی ہیں۔ اِس ضمن میں مولانا ثناء اللہ عمری لکھتے ہیں:
’’دلّی اور لکھنؤ کے دبستانوں کی ٹکسالی زبان ، سیاق وسباق کے مناسب الفاظ، امثال، استعارے اور محاورے، مختصر بول، سونے کے مول تول، حشو وزوائد سے پاک، چھوٹے چھوٹے میٹھے اور رسیلے جملے ، دل میں رکھ لینے کے قابل، مبالغہ اور غلوسے اجتناب، نہ گراں گزرنے والااطناب، نہ کھٹکنے والااختصار، ہر صاحبِ سوانح کی طرف حسبِ استحقاق توجہ اور التفات، ابتداء اور اختتام کا ڈرامائی اسلوب ، انشاء پردازی کا اعلیٰ نمونہ
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست !
نتیجہ یہ کہ میں نے یہ تحریریں پڑھی اور بار بار پڑھی ہیں، اسی بار بار کی تکرار سے میرے شوقِ خامہ فرسائی اور ذوقِ خاکہ نویسی کو مہمیز ملی ہے۔ اور مجھ دیہاتی نے اِس میدان میں قدم رکھا ہے
امید ہست کہ بیگانگئ عرفیؔ را
بدوستی سخنہائے آشنا بخشند۔‘‘
( مجھے یاد آنے والے، ص: ۱۳)
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کا تعارف کراتے ہوئے ضیاء اللہ کھوکھر نے آپ کی مرقع نگاری کی خصوصیات اور اسلوبِ بیان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ مولانا نے معلومات کی فراہمی میں ذاتی تعلقات ، تاثرات، مشاہدات، اور تجربات سے کام لیا ہے۔ اورمعلومات کے حصول میں خطوط ، تصانیف اور شعر وشاعری کو مناسب اہمیت دے کر نتائج اخذ کئے ہیں۔ مصنف نے قارئین کو ایسی معلومات سے روشناس کرایاہے ، جن کا کسی اور جگہ سے حاصل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا ۔ مولانا کی اس کاوش سے وہ معلومات محفوظ ہوگئی ہیں ،جو شاید کبھی بھی صفحۂ قرطاس پر نہ آسکتیں۔ مولانا کی یہ ایسی ادبی ، تاریخی اور سوانحی خدمت ہے‘ جسے مستقبل کا کوئی مؤرخ اور محقق نظر انداز نہیں کرسکے گا۔ مولانا نے بلاشبہ صرف مستندمعلومات پر ہی انحصار کیا ہے، اور ان پر مکمل اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
مولانا کا اسلوبِ بیان سادہ، طرزِ نگارش ادبی اور مشاہدہ وسیع ہے۔بڑی روانی کے ساتھ زیرِ قلم شخصیت کی فکری اور عملی زندگی کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کرتے چلے جاتے ہیں کہ اس کی خارجی اور داخلی کیفیت‘ نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔ مولانا کے قلم سے نکلنے والے جملے ، قلب کے شدید تاثرات اور جذبات کے آئینہ دار ہیں۔اسی لئے براہِ راست دل میں اتر تے ہیں‘ اور قاری شدتِ احساس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔‘‘
( نذرانہ اشک‘ص: ۱۲)
ضیاء اللہ کھوکھر مزید لکھتے ہیں:
’’ مولانا خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ ‘ حلیہ نگاری میں بھی کمال رکھتے ہیں۔ جہاں سیرت کے بے نقاب اور پوشیدہ گوشے واضح طور پر سامنے آجاتے ہیں، وہاں شخصیت کی ایسی جھلک دکھادیتے ہیں کہ اصل تصویر نظروں میں پھر جاتی ہے۔جن اشخاص کے ذکر سے اس کتاب کو مزین کیا گیا ہے ، وہ پوری آب وتا ب کے ساتھ ایک بار پھر زندگی سے ہمکنار ہوکر سامنے آجاتے ہیں۔خاکے میں ایسا رنگ بھرتے ہیں کہ جیتی جاگتی ‘ چلتی پھرتی اور بولتی چالتی زندہ تصویر سامنے آجاتی ہے۔ان کے تراشیدہ قلمی چہرے ، اصلی چہروں سے زیادہ بھلے لگتے ہیں۔ یہ خاکے اس قدر حقیقی اور سچے ہیں کہ پڑھنے والابے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ میں تو اس شخصیت سے واقف ہوں ‘ جس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ مولانا جس شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں ‘ وہی گفتگو کا مرکز و محور رہتی ہے۔ خود اپنی ذات کو حاوی نہیں ہونے دیتے۔
خاکہ نویسی کی روایت میں یہ اہم پیش رفت ہے۔اردو ادب کے سوانحی سرمایہ ء علمی میں اسے بلند مقام حاصل ہوگا۔ یہ کتاب اپنے خاکوں سمیت زندہ رہنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔سبھی خاکوں میں بہت سے جملے اور نکتے دعوتِ انتخاب دے رہے ہیں۔ لیکن یہ اپنے مقام پر ہی پر لطف اور پر کشش معلوم ہوتے ہیں۔‘‘( نذرانہء اشک، ص: ۱۳)
مولانا ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کے بارے میں ایک تصریح ‘ یہ بھی ہے کہ آپ کے مرقعوں کے مجموعہ ’’ نذرانۂ اشک ‘‘ اور ’’ مجھے یاد آنے والے‘‘ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ نے شاید مرحومین ہی کے مرقعے لکھے ہیں۔ بالعموم یہ تاثر صحیح بھی ہے۔ لیکن آپ نے چند زندہ لوگوں کے بھی مرقعے لکھے ہیں۔ جیسے ’’میرے اساتذہ‘‘ ایک طویل مضمون ہے ‘ جو کئی مرقعوں پر مشتمل ہے،اس میں چند مرحومین کے علاوہ اکثر باحیات لوگوں کی مرقع کشی کی گئی ہے۔
’صحیفۂ عمرآباد ‘ ۱۹۷۷ ء میں مولانا سید شاہ صبغت اللہ بختیاری پر جو مرقع ہے ، صاحبِ مرقع سے مرقع نگار کے تعلقات و روابط کا آئینہ دار ہے۔اور جب صاحبِ مرقع کا ۱۹۹۳ء میں انتقال ہوا تو مولانا ثناء اللہ عمری نے ماہنامہ راہِ اعتدال ‘ عمرآباد کی چھ قسطوں میں ایک مبسوط سوانحی خاکہ تحریر کیا۔
مولانا بختیاری پر جو مرقع ۱۹۷۷ ء میں لکھا، اس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے :
’’وطن رائے چوٹی ہے، اور میری رائے ہے کہ یہاں اس چوٹی کا کوئی اور عالِم نہیں اٹھا۔بقول خود مولانا نے دارالعلوم یوبند میں بارہ سال زانوئے ادب تہہ کئے ہیں ‘ اور جامعہ دارالسلام عمرآباد میں بارہ ہی سال درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔ بڑی پر لطف اور باغ وبہار طبیعت پائی ہے ۔ ساتھ ہی مزاج قلندارانہ ہے۔یہ اجتماعِ ضدین کھلتا نہیں ۔مولانا کی ذات میں خوب نکھرتا ہے۔گھنٹوں ساتھ رہئے، مولانا اکتائیں گے نہ مولانا کا مخاطب۔ بات میں بات پیداکرنا آپ کا ایسا کمال ہے‘ جیسے لگتا ہے وہ آپ ہی کے ذہن کا حصہ ہو۔ہر رنگ کی محفل میں کھپ جائیں گے ، بلکہ مرکزِ توجہ بن جائیں گے۔ بسا اوقات مقفیٰ اورمسجع عبارتوں سے پر ہوتی ہے، جو کہ ذوقِ ادب پر بھی گراں نہیں گزرتی ، بلکہ سننے والے کے آتشِ شوق کو تیز تر کردیتی ہے۔
ساداتِ بختیار سے نسبت رکھتے ہیں ‘ لیکن اس دوہری نسبت پر نہ نازاں ہیں‘ نہ اس نسبت کے احساس سے بے خبر۔ مطلب یہ کہ اس شرف سے عاید ہونے والے فرائض و حقوق سے اغماض نہیں کرتے ۔ مولانا سید حسین احمد مدنی مرحوم کے خصوصی شاگرد ، مولانا ابوالکلام آزاد کے مداح ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے رفیقِ سابق، کانگریسی کیمپ کے قدردان، لیگ کے ناقد ، حنفی مسلک کے پیرو ، دیگر مسالک کے لئے روادار، حدیث وفقہ پر گہری نظر رکھنے والے ، علمِ تفسیر کے رمز شناس ، اردو زبان کے دلکش متکلم، بحرِ تصوف کے غوطہ زن، جامعہ دارالسلام کے سابق استاد، مصحف مرحوم کے شریک مدیر اور مقالہ نگار۔
یہ ہے مختصر الفاظ میں مولانا کا سراپا۔یہ ساری حیثیتیں مولانا بختیاری میں ہیں، یارہی ہیں۔..........‘‘
(صحیفہ ، جامعہ دارالسّلام‘ عمرآباد،ص:۴۲۱)
علامہ غضنفر حسین شاکر ؔ نائطی‘ عمرآباد کے ان اساتذہ میں سے ہیں ‘ جن سے مولانا ثناء اللہ عمری نے پڑھا ہے۔آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ ایک صحبت میں ‘ اِس بے بضاعت نے ’’ غت ربود‘ ‘ قسم کا ایک سوال کردیا۔ کچھ دیر حسبِ عادت توقف فرمایا۔ پھردوچار بار گویا اپنے آپ سے پوچھا کہ یہ کیسا لفظ ہے؟ ، مجھ سے فرمایا کہ کہاں دارد ہواہے ؟ میں نے مومن خان مومن ؔ کا یہ شعر پڑھا
مومنؔ آ کیشِ محبت میں کہ سب کچھ ہے روا
حسرتِ حرمتِ صہبا و مزامیر نہ کھینچ !
اب عقدہ حل ہوگیا تھا۔نیم دراز تھے ، اٹھ بیٹھے، آواز بلند ہوگئی اور ’آ‘ لفظِ ندا یا تخاطب کو ’کیش ‘سے الگ پڑھا ۔ لیکن سائل کی نادانی کو شرمندہ نہیں کیا۔( صحیفہ ،عمرآباد، ص: ۳۹۷)
مولانا ثناء اللہ عمری نے مولانا ابوالجلال ندوی پر جو مرقع لکھا ہے ‘ اس کا ایک اقتباس دیکھئے :
’’...... مولانا ابواجلال صاحب ‘ عمرآباد میں’’ عمرلائبرری ‘‘ کے ایک کمرے میں قیام فرماتے ۔ شب وروزکا مشغلہ یہی لکھنا پڑھنا تھا، مطبخ سے کھانا بھی وہیں پہنچ جاتا تھا۔ گاہ گاہ کوئی دوست ادھر آنکلتا اور رسمی پرسشِ مزاج کے بعد دریافت کرتا کہ مولانا ! آپ نے کھانا کھالیا؟ مولانا جیسے چونک اٹھتے ، کتاب سے نظر ہٹاکر کھانے کے برتنوں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال لیتے۔ او ر جواب دیتے کہ ہاں کھالیا ہے۔حالانکہ بات یہ ہوتی تھی کہ مولانا کو اپنے کام میں ہمہ تن مشغول دیکھ کر چپکے سے کوئی کتا پہنچ جاتا ، کھاپی کر اپنا کام کرجاتا، اور مولانا اپنی غائب دماغی کی بدولت یہ خیال کرتے کہ کھاچکے ہیں۔
میرے ایک استاد ‘ حضرت مولانا عبدالسبحان صاحب اعظمی فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ انہوں نے مولانا ابوالجلال ندوی سے پوچھا ،مولانا! آپ بحیثیتِ ممتحن‘ جامعہ محمدیہ‘ رائے درگ تشریف لے گئے ، مدرسہ سے معاوضہ کیا ملا؟ جواب دیکھئے، کیا دلچسپ ہے ‘ فرماتے ہیں ‘ ہم نے توگنے نہیں ‘ بہت ہی روپیئے دئیے ہوں گے ، اس لئے کہ ہم خرچ کئے جارہے ہیں ‘ تاہم رقم ابھی باقی ہے۔ ! وہی کامل محویت و استغراق کا عالم ، زندگی کی بے ضرر آسائشوں اور آرائشوں سے بھی کچھ سروکار نہ تھا۔ پھٹا پرانا پہن لیا ، موٹا جھوٹا کھالیا ، ...کام سے کام رکھا ۔
پید اکہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس! تم کو میر ؔ سے صحبت نہیں رہی!
( مجھے یادآنے والے، ص:۱۲۱)
راقم الحروف کواِس بات کا شدید احساس ہے کہ مولانا ثناء اللہ عمری کی تحریروں کے بہت کم نمونے پیش کرنے کا موقعہ ملا۔ اس سلسلہ میں انتخاب خود ایک مسئلہ ہے ۔ وقت کی قلت اور اختصار کے پیشِ نظر اس مختصر سے جائزہ کو تعارف پر محمول کیا جائے۔
یہ ہیچ مداں مقالہ نگار ، اِس بات کا یقینِ کامل رکھتا ہے کہ مولانا محمد ثناء اللہ عمری کی مرقع نگاری کی جانب التفات کیا جائے گا،آپ کی مرقع نگاری کا جائزہ لیا جائے گا۔محققین اور ناقدینِ ادب ‘ مولانا ثناء اللہ عمری ‘ جیسے ایک مرقع نگارکو درخورِ اعتناء سمجھیں گے ‘ جو کسی ستائش کی تمنّا اور صلہ کی پرواہ کئے بغیر،ایک دورافتادہ مقام پر، فکر وفن کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہے۔